نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
صبرورضا زخمی نوجوان: سیدموسی ۱۷؍۱۸ کے سال جوان تھے،ان کے والد سید احمد علی صاحب جس دن پھولڑے کی لڑائی میں شہید ہوئے اس دن سے سید موسی کی طبیعت مغموم رہنے لگی،کبھی کبھی اپنے دوستوں سے کہتے کہ اگر میرا کبھی کسی لڑائی میں جانے کا اتفاق ہوا تو ان شاء اللہ بیچ کھیت میں مجھے دیکھنا،یعنی لڑکر شہید ہوجائوں گا،ان کے اس حال کی اطلاع سید صاحب کو بھی تھی،وہ رسالدار عبدالحمید خان کے سواروں میں تھے،جب تورو سے مایار کی طرف لشکر چلا تو آپ نے ان سے کہا کہ تم اپنا گھوڑا اور کسی کو دیدو،اور تم ہمارے ساتھ پیادوں میں رہو،انہوں نے عرض کیا ،آپ مجھ کو یونہی رہنے دیجئے،جب درانیوں کا ہلہ آیا،آپ گھوڑے کی باگ اٹھا کر اس میں گھس گئے،اور خوب تلواروں سے لوگوں کو مارا،اور زخمی کیا،اور آپ بھی زخمی ہوئے،مگر لڑتے رہے،جب زخموں کے مارے دونوں ہاتھ بیکار ہوگئے اور کئی زخم سر میں لگے اس وقت بیتاب ہوکر گھوڑے سے گرے۔ خادی خان قندھاری کہتے ہیں کہ میں دور سے سنا کہ کوئی زخمی پڑا ہوا’’ اللہ اللہ‘‘کہہ رہا ہے،میں نزدیک گیا تو پہچانا کہ یہ تو سید ہیں،سر کے زخموں سے جو خون بہہ رہا تھا اس سے ان کی آنکھیں بند تھیں،میں نے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔میں آپ کو اٹھاکر لے چلوں،انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اور فتح کس کی ہوئی؟میں نے کہا کہ میں خادی خان ہوں،اور فتح سید بادشاہ کی ہوئی،یہ سن کر انہوں نے کہا’’الحمدللہ‘‘اور قدرے ۔۔۔سے ہوگئے،اور مجھ سے کہا کہ مجھ کو لے چلو،میں اپنی پشت پر سوار کرکے اٹھا لایا،سید صاحب نے ان کو بے چین دیکھ کر فرمایا کہ ان کو مایار کی مسجد کے حجرے میں پہونچائو،آپ نے بعض رفیقوں کو ان کی خدمت کے لئے ساتھ کردیا۔ مولوی سید جعفر علی لکھتے ہیں کہ سید صاحب ان کو دیکھنے تشریف لائے،آپ نے فرمایا