نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
رکھتے ہیں اور اس مرتبہ کے کچھ تقاضے بھی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب پہلی حاضری ہوئی تھی تو رات کے اخیر میں استنجا کے لئے بیدار ہوا ،اور لوٹا لے کے آگے بڑھا کہ نل سے پانی لوں ، چند قدم چلا تھا کہ تیزی سے ایک سایہ آتا ہوا محسوس ہوا، دیکھا تو حضرت تھے انھوں نے میرے ہاتھ سے لوٹا لے لیا کہ آپ کو معلوم نہیں ہوگا کہ نل کہاں ہے ؟میں پانی لادیتا ہوں ، میں ہکا بکا ہو گیا ، پھر میں نے بڑی لجاجت سے عرض کی کہ مجھے معلوم ہے کہ نل کہاں ہے ؟میں گنہ گار توہوں مزید گنہ گار نہ بنائیے ، خیریت گزری کہ حضرت کو ترس آگیا اور لوٹا مجھے دے دیا ۔ اسی سفر میں دیکھا کہ تمام خدام سامنے موجود ہیں ، حضرت نے فرمایا کہ فلاں جگہ مہمانوں کے لئے پلنگ بچھا دیجئے اور جب تک کوئی پہونچتا حضرت خود ہی پہونچ کر پلنگ بچھانے لگے ، خدام دوڑے اور حضرت سے پلنگ لے لی ۔عجب شان تھی اس مرد خدا کی: خدمت کا ایک اورانداز ملاحظہ ہو ، حضرت تو پیکر جمال تھے جدھر دیکھئے حسن عمل کا ایک جلوہ دکھائی دیتا تھا ۔ میری پہلی حاضری حضرت مولانا جامی صاحب کے ساتھ ہوئی تھی ، اس موقع پر حضرت نے باندہ کی ایک وسیع مسجد میں ہم لوگوں کے وعظ کا انتظام کیا تھا ۔ جاڑے کا موسم تھا ، شب میں گیارہ بجے کے قریب وعظ ختم ہوا ، بارہ بجے ٹرین کا وقت تھا ، ہم لوگوںنے پروگرام بنایاکہ ذرا چائے وغیرہ پی کر اسٹیشن چلیں ، حضرت نے فرمایا کہ ٹرین کا کچھ ٹھیک نہیں کہ کب آئے ؟ جاڑے کی رات ہے آپ لوگ پریشان ہوں گے ، میں اسٹیشن جاکر معلوم کرکے آتا ہوں کہ وہ لیٹ تو نہیں ہے ؟ہم لوگ حیران کہ یااﷲ! آپ جائیں گے ، ہاں ہاں میں جاکے ابھی معلوم کرکے آجاتا ہوں ، ہمارے ساتھ حافظ سرور بھی تھے جو حضرت کے بہت چہیتے شاگرد ہیں اور بے تکلف بھی ، حافظ سرور نے کہا کہ حضرت میں جاکر معلوم کرکے آتا ہوں ، فرمایا تم سے نہیں بنے گا ، میں ہی جاکر معلوم کروں گا ، حافظ سرور نے کہاکہ ایک سائیکل منگوادیجئے ، فوراً چلا جاتا ہوں ، سائیکل آگئی ، حافظ سرور صاحب نے اس پر سوار ہونا چاہا تو حضرت نے فرمایا کہ مجھے بھی بٹھا لو ، سائیکل میں پیچھے کیریر نہیں تھا ، حضرت آگے ہی سائیکل کے ڈنڈے پر بیٹھ گئے اور اسٹیشن گئے اور تھوڑی دیر میں معلوم کرکے آگئے ، فرمایا کہ گاڑی وقت پر ہے ، لیکن آپ لوگ آرام کرلیجئے ، صبح بس سے چلے جائیے گا ۔ پھر یہ بات طے ہوگئی ، واﷲ عجب شان تھی اس مرد خدا کی ۔