نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
عموماً مہمانوں کے لئے ہوتے تھے،اور محلے کے غریب بچوں کو بلا بلا کر کھلانے میں استعمال ہوتے تھے،اس کے باوجود چھلکے اور گٹھلیوں کو یکجا ڈھیر کردینے سے گریز فرماتے تھے کہ غریبوں کی حسرت کا سبب نہ بن جائیں۔بعض فقہا نے بازار کے کھانے سے اس لئے پرہیز فرمایا ہے کہ ان پر غریبوں کی نظریں پڑتی ہیں،اور ناداری کے سبب وہ ان کی حسرت کا سبب بنتی ہے۔ دیکھئے ان اللہ والوں کی نظر دنیا کے کاموں میں کیسی دقیق ہوتی ہے،اور ہر چیز کا حق کس کس طرح ادا کرتے ہیں۔(ارواح ثلاثہ۔ص۳۴۵)پڑوس کی رعایت : اعزا واقربا،احباب اہل محلہ کے حقوق وجذبات کی جس قدر رعایت کرتے ہوئے اس مرد خدا (حضرت میاں جی مولانا سید اصغر حسین صاحب)کو دیکھا اس کی مثال ملنی مشکل ہے، میاں صاحب کا اکثر مکان کچا تھا،جس پر ہر سال کہگل ہونا ضروری تھی،اگر نہ کی جاتی تو مکان منہدم ہونے کا خطرہ تھا،ہر سال برسات سے پہلے اس پر کہگل کرانے کا معمول تھا،اور اس وقت گھر کا سارا سامان باہر نکالنا پڑتا تھا،ایسے ہی ایک موقع پر والد صاحب(مفتی شفیع صاحب) نے عرض کیا کہ حضرت!ہر سال آپ کو یہ تکلیف ہوتی ہے،اور ہر سال کا خرچ بھی جو اس پر ہوتا ہے وہ جوڑا جائے تو پانچ سال میں اتنا ہوجائے گا کہ اس سے پختہ اینٹوں کا مکان بن جائے۔اخلاق کریمانہ سے کسی کی بات کاٹنے کا وہاں دستور ہی نہ تھا،بڑی دلداری اور حوصلہ افزائی کے ساتھ فرمایا کہ ماشاء اللہ آپ نے کیسی عقل کی بات فرمائی ،میرا بھی اندازہ یہی ہے،پانچ سال میں جتنا خرچ اس پر ہوجاتا ہے اتنے خرچ میں پختہ اینٹوں کا مکان بنا کر اس غم سے نجات ہوسکتی ہے،ہم بڈھے ہوگئے،اتنی عقل نہ آئی کہ ایک دفعہ ایسا کرلیتے ،یہ کہہ کر خاموش ہوگئے،اس کی جو اصل حقیقت تھی اس کا اظہار اس طرح فرمایا کہ میرے پڑوس میں جتنے مکان سب غریبوں کے ہیںاور کچے ہیں،ایسی حالت میں میاں صاحب کیا اچھا لگتا کہ اپنا مکان پختہ بناکر بیٹھ جاتا،پڑوسیوں کو حسرت ہوتی۔ اس وقت راز کھلا کہ یہ حضرت کس مقام بلند پر ہیں،ان کے اعمال افعال کا اندازہ لگانا دشوار ہے کہ ان میں کیسے کیسے اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں،پڑوسیوں اور غریبوں کی رعایت ،ان کی