نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
مکمل تنہائی ہوتی ، کیونکہ ان کا نٹوں سے الجھنے کون آتا،میں ایک کنارے کھڑاہوجاتا اورزور سے پکارتا، پڑھو، اگر ہواچلتی ہوتی اورپودے جھومتے ہوتے تو میں فرض کرلیتا کہ سب پڑھ رہے ہیں، میں اس منظر سے خوش ہوتا۔شاباشی کے کلمات کہتا، اوراگر ان کا جھومنا بند ہوجاتاتو میں چھڑی سے انھیں مارنا شروع کردیتا ،سب کی گردنیں جھولتی چلی جاتیں اورکہتاجاتاکہ نہیں پڑھوگے تو یہی سزاملے گی ،آدھ گھنٹہ پون گھنٹہ اس مشغلہ میں گزرجاتا ۔کبھی مارنا کبھی ڈانٹنا ،کبھی چمکارنا،کبھی ترغیب دینا، جب واپس آتا تو کہہ کرآتاکہ اچھافلاں وقت پھر آؤںگا سبق یاد کرکے رکھنا، اگر ذرا بھی غلطی ہوئی تو پھر پٹائی ہوگی۔یہ مشغلہ مدتوں جاری رہا ۔بھڑبھڑوا کا موسم ختم ہوجاتا اوراس کے پودے سوکھ کر ختم ہوجاتے تو میرے اوپر ایک بے کیفی سی طاری ہوجاتی اورجب وہ ہرے بھرے ہونے لگتے تو مجھ پر پھر وہی نشاط طاری ہوجاتا۔احمد کا معجزہ: میرے دادا اورمیرے بڑے والد اورخاندان کے بعض اوربزرگوں کا تعلق کہنڈہ کے ایک نقشبندی شیخ حضرت حافظ حامد حسن صاحب سے تھا، ان کے تعلق کی وجہ سے یہ دونوں حضرات ذکروشغل اوروظائف ومراقبہ میںلگے رہتے ،مجھے ہوش ہواتوحافظ صاحب کا وصال ہوچکاتھا ان کے خلیفہ حضرت صوفی عبدالرؤف صاحب مئوی علیہ الرحمۃ ہمارے یہاں آتے تھے، اوربڑے والد ان کے یہاں جایاکرتے تھے، میں نے انھیں بچپن میں کئی مرتبہ دیکھا ہے۔ ان کے پاس بیٹھا ہوں،عجب نورانی چہرہ تھا ،خوبصورت دمکتاہوا اس پر نہایت حسین وجمیل سفید بڑی بڑی گول داڑھی، میں نے اتنا نورانی چہرہ کم دیکھاہے ،ایسا محسوس ہوتاتھا جیسے اندرسے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی ہوں ،بچوں سے بہت پیار کرتے تھے ان سے خوب میٹھی میٹھی باتیں کرتے ۔ ایک بار بڑے والد صاحب کے گھر چھوٹے سے کھٹولے پر پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے،نیچے چٹائی پر ان کے پاؤں سے لگ کر بڑے والد صاحب کے دوبیٹے بیٹھے ہوئے تھے اورایک کنارے میں بھی دبکاہواتھا انھوںنے باری باری ہر ایک کے سرپر دست شفقت رکھا ان کا ہاتھ کیاتھا جیسے دبیز ریشمی مخمل،پوچھا تمھارا کیانام ہے؟ بتایامحمد بلال،فرمایابلال موذن،حضرت بلال ص حضورا کے موذن تھے ،پھر پوچھااورتمھاراکیانام ہے اس نے کہا ابوہریرہ ،مسکرانے لگے فرمایابلی