نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ہوتے تھے، البتہ ایک نیلی لنگی ساتھ رہتی تھی، جب کپڑے زیادہ میلے ہوگئے، تو لنگی باندھ کر کپڑے اتار لئے، اورخود ہی دھو لئے، اوروہ لباس بھی کیا تھا، جو اتنی قلت کے ساتھ رہتا تھا، بغیر کرتے کے بندوں دار اچکن یا انگر کھا، یا پاجامہ،سردی ہوتی تو مختصر سا معمولی عمامہ ورنہ ایک کنٹوپ تمام سردی سر پر رہتا، مدۃ العمر کپڑوں میں بٹن نہ لگائے۔ فرماتے تھے کہ یہ نصاریٰ کی علامت ہے ، ہرجگہ بند استعمال کرتے، اگر ان کے پاس کوئی دنیا ہی کے لئے آتا تو محروم وہ بھی نہ ہوتا، کیونکہ آپ کے پاس بہت کچھ آتا تھا، مگر اس میں اپنے لئے کچھ بچاکر رکھ لیں، یہ انہیں پسند نہ تھا۔(ارواح ثلاثہ۔ص۱۹۵)تلاش حق: مولانا محمد یحییٰ صاحب محدث کاندھلوی (والد ماجد حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی نے فرمایا کہ مولوی یحییٰ ! احمد رضاحاں مدت سے میرا رد کررہا ہے، ذرا اس کی تصنیف ہمیں بھی سنادو، (اس وقت مولانا کی ظاہری بینائی کثرت گریہ کے باعث جاتی رہی تھی)میں نے عرض کیا کہ حضرت مجھ سے تو نہ ہوسکے گا، حضرت نے فرمایا کہ کیوں؟ میں نے عرض کیا حضرت ان میں تو گالیاں ہیں، فرمایا کہ اجی دور کی گالیوں کا کیا کہنا، پڑی (یعنی بلا سے) گالیاں ہوں، تم سناؤ، آخر اس کے دلائل تو دیکھیں، شاید کوئی معقول بات بھی لکھی ہو، تو ہم رجوع کرلیں، میں نے عرض کیا کہ حضرت مجھ سے تو نہیں ہوسکتا۔(ارواح ثلاثہ۔ص۲۲۳)بے نفسی کا کمال: حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا گنگوہی حدیث کا سبق پڑھارہے تھے، کہ بارش آگئی، سب طلبہ کتابیں لے لے کر اندر بھاگے، مگر مولانا کو دیکھا گیا تو سب طلبہ کے جوتے اٹھا کر محفوظ جگہ رکھ رہے ہیں۔(ارواح ثلاثہ۔ص۲۳۹)طالب علم کی عزت افزائی: حضرت مولانا تھانوی نے فرمایا کہ حاجی حضرت محمد عابد صاحب (بانی دارالعلوم دیوبند) ہمارے بزرگوں میں سے ہیں، میرے استاذ مولانا فتح محمد صاحب ان کی ایک حکایت