نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
فرمادیتے کہ پڑھ تو مشکل کتابیں بھی بلا تکلف پڑھتیں، امام غزالی کی کیمیائے سعادت، شاہ صاحب کے حکم سے پڑھا کر تیں، لیکن یہ جبھی تک ہوتا جب تک شاہ صاحب موجود ہوتے، ان کے ہٹ جانے پر سابقہ حالت پر آجاتیں، وہ خود فرماتی تھیں کہ ان کے جانے کے بعد کچھ پتہ نہیں چلتا۔ حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں ایک حافظ نابینا رہا کرتے تھے، وہ شاہ صاحب پر فدا تھے، گھر بار چھوڑ کر شاہ صاحب کے یہاں پڑ رہے تھے، ان سے ایک مرتبہ نہ جانے کس حال اور کس شان سے فرمایا کہ حافظ صاحب! استغفراﷲ پڑھئے، پھر تو ایسا ہوا کہ مہینوں حافظ صاحب کی زبان پر بے اختیارانہ استغفراﷲ جاری رہا۔فہم صحیح: اب جو واقعہ ذکر کرنا چاہتا ہوں، اس کے راوی حضرت مولانا ضمیر احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ ہیں، سلطان شاہ صاحب اصطلاحی طور پر گو کہ عالم نہ تھے، مگر اﷲ تعالیٰ نے دین کی وہ سمجھ عطا فرمائی تھی جس کو حدیث میں فرمایا گیا ہے۔ من یرد اﷲ بہ خیرا یفقہہ فی الدین۔ اﷲ تعالیٰ کو جس بندے کے حق میں خیر منظور ہوتی ہے، اسے دین کے باب میں سمجھ عطا فرمادیتے ہیں۔ مولانا ضمیر احمد صاحب بتارہے تھے سلطان شاہ صاحب کے منجھلے صاحبزادے حضرت مولانا دین محمد صاحب نے مشہور غیر مقلد عالم مولانا حافظ عبداﷲصاحب غازیپوری کی خدمت میں حدیث کا درس لیا تھا، وہاں سے فارغ ہوکر گھر آئے تو استاذ کے اثر سے نمازوں میں رفع یدین کرنے لگے، شاہ صاحب نے انہیں پہلی دفعہ رفع یدین کرتے دیکھا تھا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو شاہ صاحب نے انھیں اپنے پاس بلایا، اور اپنے سادہ دیہاتی لہجہ میں مخاطب کیا کہ اے دِنُّویہ نماز میں ہاتھ کیوں اٹھارہے تھے، مولانا نے عرض کیا کہ بابا! نماز میں ہاتھ اٹھانا سنت ہے، فرمایا اچھا ہم کو تو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ سنت ہے، ہماری اتنی لمبی عمر ہوگئی اور کتنے عالم علماء سے ملاقات ہوئی مگر کسی نے نہ بتایا کہ یہ بھی سنت ہے، پھر کہنے لگے کہ گھر کا عالم بنانے میں کتنا فائدہ ہے۔ اب معلوم ہوا کہ یہ سنت ہے، لیکن بھیا یہ تو بتاؤ کہ اتنی عمر ہوگئی، اور ہم نے اب تک نماز بغیر ہاتھ اٹھائے پڑھی ہے، تو وہ سب نماز تو خلاف سنت ہوئی، اب کیا کریں؟ مولانا نے عرض کیا، نہیں