نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
اپنے مدرسہ کے ذکر سے گریز: حضرت مفتی صاحب نے ایک مرتبہ فرمایا کہ: ’’ایک سیٹھ نے پوچھا کہ میرا کوئی وارث نہیں ہے،میں زندگی میں اپنا مال تقسیم کرنا چاہتا ہوں،اس کے لئے بہترین جگہ کون سی ہوگی؟تو میں(مفتی محمد شفیع صاحب) نے متعدد دینی مدارس اس کو بتلائے، تو پاس بیٹھنے والے ایک شخص نے تعجب سے کہا کہ آپ کا بھی تو اپنامدرسہ ہے،اس کانام کیوں نہیں لیا؟ میں نے کہا اگر اس کو کچھ دینا ہوگا تو خود دیدیگا،مگر میری اپنی حمیت گواراہ نہیں کرتی کہ وہ مجھ سے مسئلہ پوچھے اور میں اس کو اپنے مدرسے میں دینے کے لئے کہوں،اس میں بھی ایک طرح کا حظ نفس پایا جاتا ہے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۲۔ص۱۰۹۸)دنیا ذلیل ہوکر آتی ہے: مولانا حبیب الرحمان صاحب دیوبندی نے حافظ انوارالحق صاحب دیوبندی کی روایت سے نقل فرمایا کہ حضرت نانوتوی چھتہ کی مسجد میں حجرہ کے سامنے چھپر میں حجامت بنوارہے تھے کہ شیخ عبدالکریم رئیس لال کرتی میرٹھ حضرت مولانا سے ملنے کے لئے دیوبند آئے،مولانا نے اس کو دور سے آتے ہوئے دیکھا،جب قریب آئے تو ایک تغافل کے ساتھ رخ دوسری طرف پھیر لیا،گویا کہ دیکھا ہی نہیں،وہ آکر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے،ان کے ہاتھ میں رومال میں بندھے ہوئے بہت سے روپئے تھے،جب انہیں کھڑے ہوئے بہت عرصہ ہوگیا تو حضرت مولانا نے ان کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ آہا شیخ صاحب ہیں،مزاج اچھا ہے؟انہوں نے سلام عرض کیا اور بندھا ہوا روپیہ قدموں پر ڈال دیا،حضرت نے اسے قدموں سے الگ کردیا،تب انہوں نے ہاتھ باندھ کر بمنت قبول فرمالینے کی درخواست کی،بالآخر بہت سے انکار کے بعد انہوں نے تمام روپیہ حضرت کی جوتیوں میں ڈال دیا،حضرت جب اٹھے تو نہایت استغنا کے ساتھ جوتے جھاڑ دئیے، اور روپیہ سب زمین پر گرگیا،حضرت نے جوتے پہن لئے اور حافظ انوارالحق صاحب سے ہنس کر فرمایا کہ حافظ جی ہم بھی دنیا کماتے ہیں،اور اہل دنیا بھی دنیا کماتے ہیں،فرق یہ ہے کہ ہم دنیا کو ٹھکراتے ہیں اور وہ قدموں پر پڑتی ہے،اور دنیادار اس کے قدموں میں گرتے ہیں اور وہ انہیں ٹھکراتی ہے،اوریہ فرما کر روپیہ وہیں تقسیم فرمادیا۔(ارواح ثلاثہ۔ص۲۰۹)