نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
صاحب اورمولانا محمد قاسم صاحب کے استاذ ہیں،دہلی میں سرکاری مدرسہ دارالبقاء میں ملازم تھے، دہلی سے نانوتہ جاتے ہوئے، راستہ میں کا ندھلہ پڑتا تھا، مولانا مظفر حسین صاحب نے ان سے کہہ رکھا تھا کہ کاندھلہ میں مل کر جایا کرو، مولانا مملوک علی صاحب نے کہہ دیا تھا کہ تکلف نہ کرنا، صرف ملنے کے لئے کچھ دیر ٹھہر جایا کروں گا، چنانچہ گاڑی راستہ ہی میں چھوڑ کر ملنے آتے، مولانا پہلے معلوم کرتے کہ کھانا کھاچکے یا کھاؤگے؟ اگر کہا کہ کھاچکے توکچھ نہیں، اوراگر نہ کھائے ہوتے تو کہہ دیتے کہ میں کھاؤںگا، تو پوچھتے کہ رکھا ہوا لاؤں یا تازہ پکواؤں، چنانچہ ایک بار فرمایا کہ رکھا ہوا لادو،اس وقت صرف کھچڑی کی کھرچن تھی، اسی کو لے آئے، اورکہا کہ رکھی ہوئی یہی تھی، انہوں نے کہا کہ بس یہی رکھ دو، پھر جب رخصت ہوتے تو ان کی گاڑی تک پہونچانے جاتے، یہ ہمیشہ کا معمول تھا۔(قصص الاکابر۔ص۴۱)دیکھ بھائی سالک مفتی شفیع صاحب قدس سرہ نے فرمایا کہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری لاہور تشریف لائے،حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب بھی ہمراہ تھے،اور میں بھی ساتھ تھا۔اس زمانہ میں مہر اور سالک مرحوم پنجاب کے مشہور صحافی اور اہل قلم مانے جاتے تھے،ان حضرات نے حضرت شاہ صاحب اور علامہ عثمانی کی تشریف آوری پر اخبارات میں یہ سرخی لگائی کہ’’لاہور میں علم وعرفان کی بارش‘‘۔اور پھر ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ اثناء گفتگو سود کا مسئلہ چل نکلا،مولانا سالک مرحوم نے علامہ عثمانی سے یہ سوال کیا کہ موجودہ بینک انٹرسٹ کو سود قرار دینے کی کیا دلیل ہے؟علامہ عثمانی نے اس کا جواب دیا،مگر انہوں نے پھر کوئی سوال کرلیا،اسی طرح سوال وجواب کا یہ سلسلہ کچھ دراز ہوگیا،علامہ عثمانی قدس سرہ ہر بار مفصل جواب دیتے مگر وہ پھر کوئی اعتراض کردیتے،وہ اپنی گفتگو میں ان لوگوں کے وکالت کررہے تھے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر بینکوں کے سود کو علما جائز قراردیدیں تو مسلمانوں کے حق شاید مفید ہو۔حضرت شاہ صاحب مجلس میں تشریف فرما تھے،حضرت کی عادت چونکہ یہ تھی کہ شدید ضرورت کے بغیر نہیں بولتے تھے،نہ اپنا علم جتانے کا معمول تھا،اس لئے علامہ عثمانی کی گفتگو کو کافی سمجھ کر خاموش بیٹھے تھے،لیکن یہ بحث لمبی ہونے لگی تو مداخلت کی اور بے تکلفی سے فرمایا: