نمونے کے انسان |
زرگان د |
آپ نے اتر کر پیشاب کیا،اور اس کے ساتھ استنجاسکھاتے چلے،کہاں تک چلتے،آخر ڈھیلا پھنک دیا، اس نے کہا ،بیٹھ جائیے،فرمایا ٹانگیں شل ہوگئی ہیں،ذرا دور پیدل چلوں گا،تھوڑی دور چل کر اس نے پھر عرض کی،پھر ٹال دیا،پھر کہا،پھر ٹال دیا،پھر وہ سمجھ گیا،اور کہا مولانا سمجھ گیا،یہ رنڈی کی گاڑی ہے،آپ اس میں نہیں بیٹھیں گے،پھر لے جانے سے فائدہ؟حکم دیجئے،لوٹ جائوں، فرمایا :ہاں بھائی بیٹھوں گا تو نہیں مگر تم کو کاندھلہ چلنا ہوگا،کیوںکہ ممکن ہے کہ کوئی اس کے پاس کرایہ کو آیا ہو اور اس نے انکار کردیا ہو تو اس کا خواہ مخواہ نقصان ہوگا،(یہاں پر شبہہ ہے کہ جب کرایہ دینا ہی تھا تو پھر کاندھلہ تک خالی بہلی کیوں لائے؟تو بات یہ ہے کہ بعض طبیعتیں بلا کار گزاری کے لینا گوارا نہیں کرتیں یا اس کے سوا کوئی اور وجہ ہو)لہٰذا آپ کاندھلہ تک ویسے ہی پیدل آئے اور ہر منزل پر بیلوں کو گڑ،گھی اور گھاس دانہ کا ویسا ہی انتظام کیا اور مکان پر آکر اس کو کرایہ دے کر واپس کیا۔(ارواح ثلاثہ۔۱۵۶)تقوی کا نور: امیر شاہ خان صاحب نے فرمایا کہ حاجی منیر خاں صاحب ،خان پوری (یہ صاحب مولوی محمد یعقوب صاحب کے برادر خورد جناب مولوی اسحاق صاحب سے بیعت تھے)اور فیض محمد خان صاحب نواب دتائولی اور میاں جی محمدی صاحب (یہ میرے استاذ سید صاحب سے بیعت تھے اور اورنگ آباد کے رہنے والے تھے)اور نواب قطب الدین صاحب اور میاں رحیم داد صاحب خورجوی اور مولوی محمد یعقوب صاحب نانوتوی،یہ لوگ میں نے ایسے دیکھے جن کی ولایت کے لئے کسی ثبوت کی ضرورت نہ تھی،بلکہ ان کے چہروں ہی سے دیکھنے والوں کو معلوم ہوجاتا تھا کہ یہ حضرات اولیاء اللہ ہیں،اس پر میں ایک بات سناتا ہوں۔ مرادآباد کی شاہی مسجد میں ایک صاحب امام تھے،میری ان سے بہت ملاقات تھی،اور مجھ سے بہت محبت کرتے تھے،قرآن بہت اچھا پڑھتے تھے،حج بھی بہت کئے تھے،مگر ہمارے بزرگوں کے ساتھ ان کو عقیدت نہ تھی بلکہ کچھ سوئِ عقیدت تھی،ایک مرتبہ کسی پنجابی کے یہاں مولوی محمد یعقوب صاحب قدس سرہ کی دعوت تھی،دعوت میں مَیں بھی شریک تھا،اور امام صاحب بھی،اور ہم لوگ دروازہ کے پاس بیٹھے تھے،جب کھانے سے فراغت ہوچکی تو ہم دونوں باہر آکر کھڑے