نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
شاگرد کا پاس ولحاظ : تحریک خلافت کے معاملہ میں حضرت شیخ الہند قدس سرہ اور آپ کے مایہ ناز شاگر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان رائے کا اختلاف تھا،جو معروف ومشہور ہے،حضرت تھانوی اس قسم کی تحریکات کو چونکہ مسلمانوں کے لئے مفید نہ سمجھتے تھے،اس لئے اس سے علیحدہ رہے،لیکن استاذ وشاگرد دونوں کو اپنے موقف پر پوری طرح ثابت قدم ہونے کے باوجود اس بات کاپورا یقین تھا کہ یہ رائے کا دیانت دارانہ اختلاف ہے،چنانچہ ایک مرتبہ تحریک کے بعض کارکنوں نے تھانہ بھون میں جلسہ کرنے کا ارادہ کیا اور حضرت شیخ الہند سے اس کی صدارت کی درخواست کی،حضرت شیخ الہند نے سختی سے انکار کردیا،اور فرمایا کہ یہ سب مجھ سے نہیں ہوسکتا،اگر میں تھانہ بھون میں جلسہ کروں گا تو مولوی اشرف علی کے لئے بڑی تکلیف کا سامان ہوگا ان کو یہ بھی گوارا نہ ہوگا کہ میں تھانہ بھون میں کوئی خطاب کروں اور وہ اس میں موجود نہ ہوں،اور اگر شرکت کریں تو یہ ان کے دیانت دارانہ موقف کے خلاف ہوگا،اس لئے یہ کام نہ کروںگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا،حضرت تحریک کے سلسلے میں ہندوستان کے مختلف خطوں میں تشریف لے گئے لیکن تھانہ بھون میں جلسہ نہیںکیا۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۲۳۱)طالب علم کی دلداری : مولانا قاری محمد طیب صاحب کے خسر مولانا محمود صاحب رامپور ضلع سہارن پور کے رئیس گھرانے کے فرد تھے،یہ خاندان حضرت گنگوہی اور بزرگان دیوبند سے وابستہ تھا،جب مولانا محمود صاحب کو تحصیل علم کے لئے دیوبند بھیجا گیا تو ان کا قیام حضرت مفتی اعظم مولانا عزیز الرحمان صاحب کی مسجد کے ایک حجرے میں ہوا،دارالعلوم سے حضرت شیخ الہندکے مکان کو جانے والے راستے پر دارالعلوم کے قریب ہی یہ مسجد واقع ہے،حسب عادت حضرت شیخ الہند دارالعلوم سے سبق پڑھا کر اپنے مکان کو تشریف لے جارہے تھے کہ اس مسجد کے دروازے پر مولانا محمود رامپوری کو کھڑا دیکھا،حال پوچھا تو معلوم ہوا کہ اسی مسجد کے ایک حجرے میں قیام ہے،حجرہ کے اندر جاکر دیکھا تو زمین پر بستر بچھا ہوا تھا،خیال آیا کہ رئیس زادہ ہیں،فرش پر سونے کی عادت نہ ہوگی،ان سے کچھ نہیں کہا اور اپنے گھر سے ایک چارپائی خوداٹھا،راستہ،گلی ،کوچہ اور بازار طے کرتے ہوئے