نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
آخر عمر میں جب قویٰ ضعیف ہوگئے تھے،عبادت کے انہماک میں اس وقت بھی کمی نہ آئی تھی،زیادہ کھڑے رہنے سے پائوں پرورم آجاتا،لیکن صحت ومرض سے بے نیاز ہوکر یہ بندہ اپنے مولا کے حضور مصروف رازونیاز ہوتا۔ ایک مرتبہ رمضان المبارک میں پائوں پرورم آیا ہواتھا،اس کے باوجود زیادہ سے زیادہ قرآن سننے کے لئے مستعد تھے،تکلیف کا خیال کرکے مستورات نے مولوی حافظ کفایت اللہ صاحب کے پاس کہلا بھیجا کہ آج کسی بہانے سے کم مقدار میں پڑھائیں،انہوں نے تھوڑا پڑھ کر کسل مندی اور گرانی کا عذر کردیا،مولانا بھی آرام کے لئے چلے گئے،اور خود حافظ صاحب بھی آرام کرنے لگے،تھوڑی دیر کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ کوئی آہستہ آہستہ ان کے پائوں دبارہا ہے، دیکھا تو خود حضرت شیخ الہند تھے،حافظ صاحب کے چہرے پر شرمندگی کے آثار دیکھ کر مولانا نے فرمایا کہ ’’بھائی کیا حرج ہے؟تمہاری طبیعت اچھی نہیں ،ذرا راحت آجائے گی‘‘۔ معمولات عبادت میں مالٹا کی اسارت اور قید وبند بھی کچھ تبدیلی نہ کراسکی،شب میں عموماً ایک یا ڈیڑھ بجے تک اٹھ جاتے،پیشاب کے لئے جاتے پھر آکر وضو فرماتے اور نوافل میں مشغول ہوجاتے،نوافل سے فارغ ہوکر مراقبہ ،ذکر خفی میں مشغول رہتے،ہزار دانہ تسبیح سرہانے رہتی،اسے بھی التزام سے پڑھتے تھے،مولانا موصوف کو سردی برداشت نہ ہوتی تھی،لیکن اس کے باوجود عبادت کے اس انہماک میں کبھی بھی فرق نہ آیا،رات کے علاوہ دن کے بھی مختلف اوقات کو اوراد وظائف میں صرف فرماتے۔(تذکرہ ٔشیخ الہند۔ص۱۵۴)تکبیر اولی کا اہتمام : دیوبند کے جلسہ دستار بندی میں جب آپ(مولانا رشید احمد گنگوہی)تشریف لائے تو غالباً عصر کی نماز میں ایک دن ایسا اتفاق پیش آیا کہ مولانا محمد یعقوب صاحب نماز پڑھانے کو مصلی پر جاکھڑے ہوئے،مخلوق کے ازدحام اور مصافحہ کی کثرت کے باعث باوجود عجلت کے جس وقت آپ جماعت میں شریک ہوئے ہیں،قرأت شروع ہوگئی تھی،سلام پھیرنے کے بعد دیکھا گیا اداس اور چہرہ پر اضمحلال برس رہا تھا،اور آپ رنج کے ساتھ یہ الفاظ فرمارہے تھے کہ افسوس بائیس برس کے بعد آج تکبیر اولی فوت ہوگئی۔(تذکرۃ الرشید۔ج۲۔ص۱۶)