نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
امان اللہ نے پیر داد خان کو بہت سمجھایا کہ اس طرح کی بے تمیزی اور بد کلامی شرفا کی شان کے خلاف ہے،پیرداد خان اپنے گھر چلے گئے،سید علم الہدی اور سید فخرالدین جو آپ کے بھائی بند تھے غصہ سے بھرے ہوئے آئے،اور کہا کہ ہم اس بدتمیز کی مرمت کریں گے،آپ نے فرمایا:خاموش رہو،ایسا نہیں چاہئے،نہیں تو اس کی جمعہ وجماعت ترک ہوجائے گی،صبر کرو۔ سید عبدالرحمان کہتے ہیں میں بھی غصے سے بے قابو ہوگیا،میں نے بھی آکر عرض کیا کہ یہ نالائق ایسی بدتمیزی کرکے یہاں سے سلامت چلاگیا،افسوس کہ میں موجود نہ تھا،آپ نے ان کو بھی ملامت کی اور کہا کہ تم بچے ہو،تم کیا جانو؟اگر اس سے جمعہ وجماعت فوت ہوجائے گی تو اس کے حق میں بڑی قباحت ہوجائے گی،اس کے بعد آپ تیارہوئے کہ میں خود معذرت کے لئے خان صاحب کے پاس جائوں گا۔آپ کا معمول تھا کہ بڑی بہن سے ملنے کے لئے قلعے تشریف لے جایا کرتے تھے،آپ گھوڑے پر سوار ہوئے اور لوگ آپ کے ساتھ چلے،بہن سے مل کر آپ لوہانی پور خان صاحب کے دروازے پر آئے،وہ آپ کی سواری دیکھ کر گھر میں گھس گئے،آپ گھوڑے سے اتر کردروازہ پر بیٹھ گئے،اور فرمایا کہ آج خان صاحب سے خطا معاف کرائے بغیر نہیں جائوں گا، خان صاحب گھر سے باہر نہیں آتے تھے ،یہاں تک کہ گائوں کے رئووسا واشراف جمع ہوگئے،ان کو بڑی ملامت کی،اور ان کا ہاتھ پکڑ کر سید صاحب کے پاس کھینچ لائے،آپ ان سے بغل گیر ہوئے اور ان سے معافی چاہی،اور فرمایا کہ اگر گائے مرجاتی تو ہم تمہیں اس سے اچھی دیتے،پھر آپ نے ان کی ایسی دلجوئی اور خاطر داری کی کہ ان کو راضی کرکے گھر واپس ہوئے۔ پیرداد خان کے چھوٹے بھائی نورداد خان آپ کی یہ عاجزی وانکساری اور بھائی کا یہ غرور وتکبر دیکھ کر بھائی سے جدا ہوگئے،اور گھر بار چھوڑ کر آپ کے ساتھ ہوگئے،یہاں تک کہ بالاکوٹ میں آپ کے ساتھ شربت شہادت نوش کیا۔(سیرت سید احمد شہید۔ج۲۔ص۴۷۲)حلم وعفو: مولوی سید جعفر علی ایک دوسرا واقعہ سید عبدالرحمان اور سید زین العابدین کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ سفر حج میں آپ کے ساتھ مولوی نصیر الدین اور شیخ نجم الدین پھکبت ساکنان لکھنؤ کے بھائی امام الدین بھی ہمراہ تھے،آپ ان کی بڑی مراعات کرتے تھے،اور ان کو بھی ابتدا میں