نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ہندوانہ لباس میںملبوس ایک ہندو نوجوان جب ہاتھ بڑھاتا ہے، تو حضرت کا ہاتھ مصافحہ کے لئے بڑھتا ہے ، اور استفہامیہ نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز ہوجاتی ہیں ، اسے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا بے ساختہ بول اٹھتا ہے کہ مجھے مسلمان بنالیجئے، اور حضرت اسی جگہ راستے ہی میں زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اور کلمہ پڑھادیتے ہیں۔ اس طرح کا ماحول تھا ، مدارس کا ،اور اربابِ مدارس کا! حضرت مولانا سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری نور اﷲ مرقدہٗ کی شخصیت ایک زمانے میں آسمانِ خطابت کی بدر کامل نہیں ، بلکہ آفتابِ جہاں تاب تھی ، عزت واکرام کی بڑی سے بڑی بلندی جو ہوسکتی ہے ، انھیں حاصل تھی ، لیکن وہ بندہ اپنے نفس کا غلام نہ تھا ، اﷲ کے لئے اس کا مرنا جینا تھا ، ایک صاحب کے یہاں زینے پر چڑھ رہے تھے ، اوپر سے ایک بھنگی اتررہا تھا، شاہ صاحب کا جاہ و جلال دیکھا ، تو وہ حواس باختہ ہوگیا ۔ زمینداری کے دور میں بھنگیوں کی جو دُرگت تھی آج اس کا تصور نہیں کیاجاسکتا ، شاہ صاحب کو دیکھ کر وہ ایک طرف سمٹنے لگا، شاہ صاحب نے بے ساختہ فرمایا تم بھی انسان ہو، کیوں ڈرتے ہو؟ یہ کہتے کہتے اسے پکڑ کر سینے سے لگالیا۔ اﷲ جانے اس پر کیا اثر پڑا کہ دوسرے دن پورے خاندان سمیت شاہ صاحب کے قدموں میں آگیا اور جہنم سے نجات حاصل کرلی۔ انھیں علماء نے اور انھیں مدارس نے لوگوں کے دین وایمان کو باقی رکھا، اور انھیں سنبھالا۔بزرگوں کا معاملہ: ایک بزرگ تھے حضرت شیخ صدرالدین عارف ، اﷲ والے بھی تھے اور بہت بڑے تاجر اور صاحب ثروت بھی تھے ، ان کے تجارتی تعلقات باہر ملکوں سے بھی تھے ، ایک مرتبہ سمندری راستے سے ان کا مال باہر سے آرہا تھا ، جہاز قریب آگیا تھا کہ سمندر میں طغیانی آگئی ، معلوم ہوا کہ جہاز پانی میں غرق ہوگیا ، ہزاروں لاکھوں کا مال تھا ، کسی نے آکر انھیں جہاز کی بربادی کی خبر دی ، انھوں نے بہت اطمینان سے کہا ’’الحمد ﷲ‘‘ حاضرین کو تعجب ہوا کہ یہ موقع الحمد ﷲ کا نہ تھا ، إناﷲ کا تھا مگر کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ ان سے سوال کرتا ، بزرگوں کے قلب کو عام لوگوں کے قلوب پر قیاس نہیں کیا جاسکتا تھا ، پھر جب طغیانی فرو ہوئی تو دیکھا گیا کہ جہاز بعافیت کنارے آلگا ، دوبارہ انھیں جہاز کی خیریت وعافیت کی خبر سنائی گئی تو پھر فرمایا کہ الحمد ﷲ ، اب ایک شخص سے نہ رہا گیا، اس