نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
دوڑ دھوپ کے پیش نظر یہ طے ہوا کہ تعویذ پہنا دیا جائے گو بے فائدہ ہی ہو، لیکن پہناتے ہی عجب تماشہ ظاہر ہوا، اس مردے میں حرکت ظاہر ہوئی اور تھوڑی دیر کے بعد سانس آنے جانے لگی، لوگوں نے فوراً قبر سے باہر نکالا، پھر وہ اٹھ کر بیٹھ گیا، لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ زندہ واپس اپنے گھر آگیا، بعد میں اطباء نے توجیہ کی کہ اسے سکتہ ہوگیا تھا، سکتہ کے مرض میں آدمی بالکل مردہ کی طرح ہوجاتا ہے، صحیح شناخت نہ ہو تو لوگ دفن کردیتے ہیں، یہاں یہی قصہ ہوا اور اگر بالفرض مربھی گیا ہو تو کیا خدا کی رحمت سے یہ کچھ بعید ہے کہ اسے دوبارہ زندہ کردیا جائے۔ وما ذالک علی اﷲ بعزیز۔ میرے دوست مولانامحمد عثمان معروفی، برادر خورد حضرت استاذی مولانا زین العابدین صاحب معروفی مدظلہ نے بتایا کہ یہ واقعہ موضع نیاؤج ضلع اعظم گڈھ کا ہے ، اوراسے مرحوم مولانا بدر الدین اصلاحی سابق ناظم مدرسۃ الاصلاح سرائمیر نے بھی بیان کیا ہے۔خدمت خلق: ایک روز اپنے دروازے سے دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی کچھ سامان اپنے سر پر رکھے ہوئے اسٹیشن کی طرف جارہا ہے، اس کا بڑھاپا اور بوجھ دیکھ کر طبیعت بھر آئی، کون آدمی ہے؟کچھ معلوم نہیں، کہاں جائے گا؟ یہ بھی نہیں خبر، اس کی طرف دوڑ پڑے، پوچھا کہاں جانا ہے، اس نے بتایا کہ اسٹیشن جانا ہے، فرمایا میں بھی چلتا ہوں، لایئے میں بھی کچھ سامان لیتا چلوں، اس کی گٹھری لے لی، اور اسٹیشن تک پہونچا دیا، وہاں تک اس بوڑھے مسافر کو پہونچا کر شاہ صاحب واپس ہوگئے، اس بوڑھے آدمی نے لپری والے شاہ صاحب کا نام سن رکھا تھا، اسٹیشن لپری گاؤں سے بہت زیادہ دور نہیں تھا، اسٹیشن پہونچ کر اسے خیال آیا کہ شاہ صاحب سے مل لینا چاہئے، اس نے اسٹیشن ماسٹر سے گاڑی کے بارے میں دریافت کیا کہ اگر وقت میں گنجائش ہو تو لپری والے شاہ صاحب سے مل کر آجاؤں۔ اسٹیشن ماسٹر شاہ صاحب سے واقف تھا، اس نے شاہ صاحب کو آتے ہوئے دیکھ بھی لیا تھا، اس نے کہا بڑے میاں! شاہ صاحب تو وہی تھے، جو تمہارے ساتھ یہاں تک آئے تھے، وہ بوڑھا دم بخود رہ گیا، وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جس نے اتنی بشاشت سے اس کا سامان ڈھویا ہے وہ شاہ صاحب ہی ہوں گے۔