نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ایک واسطہ ہوں ، قبول عدم قبول کا آپ کو پورا اختیار ہے ، اور آپ کے اطمینان کے لئے یہ بھی کہتا ہوں کہ آپ اگر اس بات کو رَد کردیں گے تو مجھے ذرہ برابر ناگواری نہ ہوگی ۔ اس کے بعد ان صاحب کی خواہش کا اظہار فرمایا ، ہمارے حضرت نے ذرا تامل کے بعد عرض کیا کہ ابھی تو میرا ارادہ نکاح کا ہے ہی نہیں ، اور اگر ہوگا تو میری والدہ موجود ہیں ، ان کے مشورہ سے کروں گا ، اور اپنے ہی خاندان میں کروں گا ۔ حضرت نے فرمایا جزاک اﷲ آپ کی اس صاف گوئی سے طبیعت بہت خوش ہوئی۔یہ ملنگ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔: مولانا محمد منظور صاحب نعمانی نے ۱۹۴۹ء میں دوسری بار جب فتح پور کے قصد سے سفر کیا ہے ، اس وقت مئو سے کوپاگنج تک یکے چلتے تھے، مولانا موصوف یکے سے تشریف لے جارہے تھے،یکے والے سے مولانا نے فرمایا کہ اگر کوپا گنج سے آگے فتح پور کے راستے میں جہاں تک یکہ جاسکتا ہے پہنچادو ، تو جوکرایہ تم مانگوگے خوشی سے دوں گا اور تمہارا احسان بھی مانوں گا ، اس یکہ پر ایک نوجوان تعلیم یافتہ ہندو بھی تھا ۔مولانا لکھتے ہیں کہ : اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ فتح پور کس کے پاس جائیں گے ؟ میں نے کہا وہاں ہمارے ایک بزرگ رہتے ہیں ، میں بس ان سے ملنے جارہا ہوں ،اس نے کہا اچھا وہ جو فتح پور کے شاہ صاحب ہیں ، آپ ان کے درشن کرنے جارہے ہیں، میں نے کہا ہاں میں ان کے درشن کرنے جارہاہوں، میں نے اس نوجوان سے پوچھا آپ ان کو جانتے ہیں ؟ اس نے کہا میں نے بس ان کا نام سنا ہے، مجھے بھی ان کے درشن کرنے کا بہت شوق ہے ، میں نے کہا آپ کو ان کے درشن کرنے کا کیوں شوق ہے ؟ اس نے کہا میں کانپور کا رہنے والا ہوں ، میرے ہاں رنگ کا بیوپار ہوتا ہے، میں اس سلسلے میں ملک بھر میں گھومتا پھرتا ہوں ، ہزاروں ہندؤں ، مسلمانوں سے میرا واسطہ پڑتا ہے ، یہاں کوپا میں ہمارے ایک بیوپاری حاجی صاحب ہیں ، وہ بڑے ایمان دار ، سچے اور دھرمی آدمی ہیں ، مہاتما ہیں ، ایسا آدمی میں نے کہیں نہیں دیکھا ، نہ ہندؤں میں نہ مسلمانوں میں۔ میں نے ان سے ایک دفعہ پوچھا تھا کہ تم میں ایسی سچائی اور ایمان داری کہاں سے آئی ؟ تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ مجھ میں تو کوئی اچھائی نہیں ہے ، میں تو بہت گندہ آدمی ہوں ، ہاں ہمارے یہاں سے قریب ہی