نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
امور مہمہ ثابت فرمائے،اور ایک غیر معمولی جلال اور جوش شان سے بیان فرمایا،یہ جوش کی شان اس وقت پیدا ہوئی تھی جب کہ ان طلبہ نے مولوی احمد حسن صاحب سے چھیڑچھاڑ شروع کی تھی، مولانا مملوک العلی صاحب(استاذ حضرت نانوتوی) نے اقلیدس کا ایک ترجمہ کیا تھا،جس پر مولوی عبدالحق صاحب خیرآبادی نے رکیک الفاظ میں اعتراض کئے تھے،ان سب کا جواب بھی اس تقریر میں ارشاد فرمایا،اور نہایت جوش میں فرمایا کہ یہ کیابات ہے کہ لوگ گھر میں بیٹھ کر اعتراض کرتے ہیں؟ اگر کچھ حوصلہ ہے تو میدان میں آجائیں،مگر ہرگز یہ توقع لے کر نہ آئیں کہ وہ قاسم سے عہدہ برآ ہوسکیں گے،پھرفرمایا کہ میں کچھ نہیں ہوں،مگر میں نے جن کی جوتیاں سیدھی کی ہیں وہ سب کچھ تھے۔غرض کہ مسائل مناطقہ وفلاسفہ کا نہایت زبردست رد اس وعظ میں فرمایا،شہر کے تمام مشاہیر سوائے مولوی عبدالحق خیرآبادی کے اس وعظ میں موجود تھے مگر بولنے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی۔ (ارواح ثلاثہ۔ص۲۰۷)استغنا ء: اس کے بعد نواب کلب علی خان نے اپنے خاص سکریٹری اور وزیر عثمان کو حضرت کی خدمت میں بھیجا کہ حضرت کا میں مشتاق ہوں،مجھ سے مل لیں،حضرت نے تو اول اعذار شروع کئے کہ میں غریب دیہات کا رہنے والا ہوں،آداب امرا سے غیر واقف،لیکن وزیر نے اپنی نہایت شستہ اور سجل تقریر میں عرض کیا کہ حضرت نواب صاحب تو خود حضرت کا ادب کریں گے،حضرت تمام آداب سے مستثنی رہیں گے،تب آخر میں مولانا نے ارشاد فرمایا کہ پھر نواب صاحب ہی تو میری ملاقات کے مشتاق ہیں،میں تو ان کی ملاقات کا مشتاق نہیں ہوں،اگر ان کو اشتیاق ہے تو خود مجھ سے ملنے آئیں،ان کے پیروں میں تو مہندی نہیں لگی ہے،بہر حال نہ جانا تھا،نہ گئے،اور امرا کے مقابلہ میں حضرت کا یہی طرز عمل رہا ہے۔نواب محمود علی خان صاحب رئیس چھتاری ساری عمر اسی تمنا میں رہے کہ کسی طرح مل لوں،مگر حضرت نے اتنا موقع ہی نہ دیا ،اگر حضرت کے علی گڑھ آنے کی خبر سن کر وہ علی گڑھ آئے تومولانا جھٹ خورجہ تشریف لے گئے،جو خورجہ گئے تو حضرت میرٹھ آئے،اسی طرح بغیر نواب صاحب کی درخواست مانے رامپور سے واپس تشریف لائے۔ (ارواح ثلاثہ۔ص۲۰۹) ٭٭٭٭٭٭