نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
کا رخ اختیار کرلیاتھا ،اس ماحول میں بدلے اور ایسا بدلے کہ الحاد کے جہنم میں جاگرے، خدا کا انکار ،رسالت کا انکار،اسی حالت میں عمر کا ایک بڑا حصہ گزرگیا بمبئی میں رہتے تھے بہت خوشحال تھے ،بیٹے دوسرے ممالک میں ملازمت کرتے تھے، دولت کی کمی نہ تھی، جن دنوں حضرت بمبئی میں مقیم تھے ان کا ایک نواسہ سخت بیمارتھا ۔دواعلاج سے عاجز آچکے تھے، کسی نے مشورہ دیا کہ مولانا مستجاب الدعوات ہیں ان سے دعا کراؤ ، وہ خداہی کے قائل نہ تھے ،دعاکے کیاقائل ہوتے؟ انکار کردیا، مگر مجبوری سب کچھ کراتی ہے مجبورا ًدعاکیلئے حاضر خدمت ہوئے، حضرت کی خدمت میں پہونچے تو حضرت کمرے میں تنہا ٹہل رہے تھے ،انھیں دیکھتے ہی جھپٹے اور فرمایا کہ میں دیر سے آپ کا انتظار کررہاہوں، آئیے ،حضرت نے معانقہ فرمایا اورایک بار نہیں پانچ بار معانقہ فرمایا ،حضرت کے ہر معانقہ پر ان کی کیفیت بدلتی جارہی تھی، آخری معانقہ کے بعد حضرت والا نے ان کا ہاتھ جو پکڑاہے تو وہ دھاڑیں مار کررونے لگے اور دل میں دین حق کے خلاف جتنی ظلمتیں تھیں یکایک سب دور ہوگئیں، اور خد اکانور سینے میں بھر گیا۔کہنے لگے حضرت اب یہ ہاتھ نہیں چھوڑ سکتا ،اس کے بعد ان کی زندگی قابل رشک حد تک پاکیزہ ہوگئی تھی ۔حافظ شبیر احمد صاحب کابیان ہے کہ میں ان سے ملاہوں اکثر وہ اپنے حجرے میں رویاکرتے تھے انھیں نے یہ واقعہ حافظ صاحب کو سنایا تھا، سناتے وقت بھی ان کی ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں ،اب ان کاانتقال ہوگیا ۔رحمہ اللّٰہاخلاص کسے کہتے ہیں ؟: ایک دفعہ بعض وقتی حالات کی بنا پر حضرت والا نے دو تین ماہ تک بمرولی میں قیام فرمایا، قیام طویل ہونے کی وجہ سے باہر سے آنے والے مہمان اور ذاکرین و شاغلین وہیں پہونچتے ۔ انھیں دنوں مئو سے حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی بھی تشریف لائے اور غالباً تین دن بمرولی میں قیام فرمایا۔ حضرت نے چودھری حبیب الرحمن صاحب کو بلاکر فرمایا کہ آپ کے ہم نام ایک مولانا صاحب اعظم گڈھ سے تشریف لائے ہیں، آپ انہیںپہچانتے ہیں؟ چودھری صاحب نے عرض کیا جی ہاں ۔فرمایا ان کے پاس جائیے اور میری طرف سے ان سے دریافت کیجئے کہ اخلاص کسے کہتے ہیں ؟چودھری صاحب کہتے ہیں کہ میں گیا تو مولانا حبیب الرحمن صاحب لیٹے