نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
میں نے دریافت کیا کہ مولانا مل گئے؟ مولانا محمود صاحب نے فرمایا کہ نہیں، مجھ کو ابھی نہیں ملے، میں نے کہا کہ اچھا چلئے سرائے میں چل کر تلاش کریں، چنانچہ سرائے کے اندر جو شخص آنے والوں کا نام لکھا کرتا تھا، اس سے میں نے دریافت کیا کہ یہاں کوئی آدمی خورشید حسن نام کے (مولانا کا تاریخی نام) بھی آئے ہیں، اس نے کہا ہاں آئے ہیں، چنانچہ ہم نے تلاش کیا تو ایک کوٹھری میں مولانا تشریف رکھتے تھے، جب صبح ہوئی تو مولانا میدان مناظرہ میں تشریف لے چلے، راستہ میں ایک ندی پڑتی تھی، اورمولانا پیدل تھے، مولانا پاجامہ پہنے ہوئے ندی میں اتر پڑے، پاجامہ بھیگ گیا، پار اتر کر مولانا نے لنگی باندھی، اورپاجامہ نچوڑ کر پیچھے لاٹھی پر جیسے گاؤں کے رہنے والے ڈال لیاکرتے ہیں، ڈال لیا،اورتشریف لے چلے، جب مولانا کی تقریر ہوئی تب لوگوں کو اطلاع ہوئی کہ مولانا محمد قاسم مناظرہ کا جواب دے رہے ہیں، اس کے بعد رتھ پر بیٹھا کر اعزاز کے ساتھ لوگ واپس لائے، اورمولانا کی تقریر سن کر وہ پادری جو وہاں مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے آیا تھا، اس نے کہا کہ اگر ایمان کسی کی تقریر پر لانا ہوتا تو میں مولانا محمد قاسم کی تقریر پر ایمان لے آتا۔ (ارواح ثلاثہ۔ص۲۱۸)الفقر فخری: صاحبزادۂ محترم حضرت مولانا حافظ احمد صاحب کا ارشاد ہے کہ مولانا محمود حسن صاحب (شیخ الہند) فرمایا کرتے تھے، کے ہمارے یہ سارے بزرگ آفتاب وماہتاب تھے، ایک سے ایک اعلیٰ وافضل تھے، لیکن بہر حال جس کی قیام گاہ پر جاکر دیکھا ضرورت زندگی میں سے کچھ نہ کچھ سامان پایا، حضرت گنگوہی کے حجرے میں سامان مباح میں سے تمام ضروریات موجود نہیں، حضرت حاجی امداداللہ صاحب کے حجرہ میں کچھ نہ کچھ اشیاء نظر پڑتی تھیں، لیکن اس منقطع عن الخلق اورزاہد فی الدنیا (مولانا محمد قاسم نانوتوی) کے حجرہ میں کچھ بھی تو نظر نہ آتا، چٹائی بھی اگر تھی تو وہ بھی ٹوٹی ہوئی، گویا عمر بھر کے لئے اسی ایک چٹائی کو منتخب فرمالیا تھا، نہ کوئی صندوق تھا نہ کپڑوں کی گٹھری،سفر میں جب یہ حضرات جاتے تو حضرت گنگوہی کے خادم خاص عبداللہ شاہ صندوق لیتے، کپڑے لگاتے، سامان سفر مہیا کرتے، اہتمام ہوتا، لیکن یہاں کوئی اہتمام نہ تھا، اگر کبھی ایک آدھ کپڑا ہوا تو کسی کے پاس رکھوادیا، ورنہ عموماً اسی ایک جوڑے میں سفر پورا ہوتا تھا، جو حضر میں پہنے