نمونے کے انسان |
زرگان د |
واقعی میرے نسب کی تحقیق مقصود ہوتو تھانہ بھون کے لوگوں سے خط لکھ کر تحقیق کرلے۔ تیسری بات یہ کہی گئی کہ میں وعظ میں کوئی اختلافی مسئلہ بیان نہ کروں،سو اس کا جواب یہ ہے کہ میں یہاں وعظ کہنے کے لئے خود نہیں آیا ہوں مجھے اس مقصد کے لئے بلایا گیا ہے،اگر اس مجمع میں سے کوئی ایک صاحب بھی اٹھ کر مجھے وعظ کہنے سے منع فرمادیں گے تو میں وعظ نہیں کہوں گا اور وعظ میں میری عادت اختلافی مسائل کو موضوع بنانے کی نہیں ہے،لیکن اثناء وعظ کوئی اختلافی مسئلہ آجاتا ہے اور اس کی وضاحت ضروری ہوتی ہے تو پھر اس کے بیان سے رکتا بھی نہیں،یہی عمل اس وقت بھی ہوگا،اب اگر آپ بات سننا چاہیں تو میں شروع کروں ورنہ رک جائوں۔ اس اندازِ کلام کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی ایک شخص نے بھی وعظ میں رکاوٹ نہ ڈالی اور پھر جب وعظ شروع ہوتا تو اتفاق سے اختلافی مسائل بھی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے اور بہت سے مخالفین اتنے متأثر ہوئے کہ ہم خیال بن گئے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۴۲۰)خادم کے ساتھ برتائو: حکیم الامت حضرت تھانوی کے ایک خادم نیاز صاحب تھے،ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے حضرت کی خدمت میں شکایت کی کہ انہوں نے بلاوجہ کچھ لوگوں سے سخت کلامی کی ہے،تھوڑی ہی دیر میں نیاز صاحب آگئے تو حضرت نے ان سے قدرے تلخ انداز میں کہا:کیوں نیاز میاں!تم ہر وقت لوگوں سے کیوں لڑتے پھرتے ہو؟اس کے جواب میں ان کے منہ سے نکل گیا۔ ’’حضرت اللہ سے ڈرو،جھوٹ نہ بولو‘‘۔ اندازہ لگائیے! اگر آج کسی بڑے سے بڑے بااخلاق شخص یا عالم کے سامنے کوئی اس کا ملازم یہ جملہ کہے تو اس کا غصہ کس انتہا پر پہونچے گا؟لیکن یہ حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہ تھے کہ اپنے ملازم کی زبان سے’’اللہ سے ڈرو‘‘کا جملہ سنتے ہی سارا غصہ کافور ہوگیا،اور فوراً گردن جھکا کر’’استغفراللہ،استغفراللہ‘‘کہتے ہوئے دوسری طرف تشریف لے گئے،در حقیقت عین غصے کی حالت میں ملازم سے یہ جملہ سن کر حضرت کو تنبہ ہوا کہ میں نے صرف ایک طرف کی بات سن کر ملازم کو ڈانٹنا شروع کردیا ہے حالانکہ پہلے اس کی بات بھی سننی چاہئے تھی،اس تنبہ کے ساتھ آپ کا طرز عمل بدل گیا۔