نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
سلسلہ شروع ہوا،حضرت نے میرے شبہات واشکالات کا جواب تحریر فرمایا،مگر احقر کو اس جواب پر اطمینان نہ ہوا،تو مزید سوالات لکھ بھیجے،اس طرح ایک عرصے تک پھر یہ زیر بحث مسئلہ ملتوی رہا، اور آخر میں جب احقر تھانہ بھون حاضر ہوا تو مزید غور وفکر کے لئے ایک مجلس منعقد ہوئی،اس میں بھی صورت حال یہی رہی کہ نہ حضرت کی رائے بدلی اور نہ میری،حضرت نے فرمایا کہ میں تمہارے جواب کو اصول وقواعد کی رو سے غلط نہیں کہتا مگر اس پر میرا شرح صدر نہیں،اس لئے اختیار نہیں کرتا،احقر نے بھی عرض کیاکہ حضرت کی تحقیق کے بعد غالب یہی معلوم ہوتا ہے کہ میری رائے غلط ہوگی مگر کیا کروں؟اس کا غلط ہونا مجھ پر واضح نہیں،اس لئے حضرت علیہ الرحمہ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اچھا بس آپ اپنی رائے رہیں،میں اپنی رائے اور فتوی پر ہوں۔ مستفتی کو ہم اس کی اطلاع کردیں گے کہ اس مسئلہ میں ہم میں اور ان میں اختلاف ہے اور کسی جانب کو بالیقین غلط نہیں کہہ سکتے،اس لئے تمہیں اختیار ہے جس پر چاہو عمل کرو۔ عجب اتفاق ہے کہ مستفتی جو حضرت کے مرید اور خاص خلیفہ تھے ان کو جب اختیار ملا تو انہوں نے عرض کیا کہ اگر مجھے اختیار ہے تو بندہ محمد شفیع کے فتوی کو اختیار کرتا ہے،حضرت نے بڑی خوشی کے ساتھ اس کو قبول کیا ۔یہ واقعہ حضرت حکیم الامت کی وفات سے چھ سال پہلے یعنی ۱۳۵۶ھ کا ہے۔(جواہرالفقہ)صحیح نام لینا چاہئے: خان صاحب نے فرمایا کہ جن بزرگوں کا اخلاق بہت بڑھ جاتا ہے ان سے مخلوق کی اصلاح نہیں ہوتی،اور فرمایا کہ مولانا نانوتوی جونہایت وسیع الاخلاق تھے مگر اصلاح کے معاملہ میں اخلاق نہیں برتتے تھے،اور مریدوں اور متعلقین کو برابر روک ٹوک کرتے تھے۔ایک مرتبہ مولانا خورجہ تشریف لائے،مولوی فضل رسول بدایونی(اہل بدعت کے پیشوااور اہل حق کے سخت معاند و مخالف) کا تذکرہ چل گیا،میری زبان سے بجائے فضل رسول (بصاد معجمہ)کے ’’فصل رسول‘‘ (بصاد مہملہ)نکل گیا،مولانا نے ناخوش ہوکر فرمایا کہ لوگ ان کو کیا کہتے ہیں؟میں نے کہا ’فضل رسول‘،آپ نے فرمایا کہ تم ’فصل رسول‘ کیوں کہتے ہوں؟۔(ارواح ثلاثہ۔ص۱۸۴)اکابر متقدمین کا ادب: جو مسائل ائمہ مجتہدین کے باہمی اختلاف سے متعلق ہیں ان کو بیان کرتے وقت یہ