نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
جب دم واپسیں ہو یا اللہ! لب پہ ہو’لاالہ الا اللہ‘ (البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۸۵)مفتی صاحب کی والدہ ماجدہ(متوفی ۳۸۱ھ) حضرت مفتی شفیع صاحب کی والدہ محترمہ سادات میں سے تھیں،اور غالباً وہ حضرت گنگوہی سے بیعت تھیں،بیوہ ہوجانے کے بعد تا حیات اپنے سعادت مند بیٹے کے ساتھ رہیں،لکھنا پڑھنا نہ جانتی تھیں،مگر نماز روزہ اور عبادات کا بڑا اہتمام فرماتی تھیں،ضروری کاموں سے فراغت کے بعد بیشتر وقت ذکر اور نماز میں یا نماز کے انتظار میں گزرتا تھا،سامنے گھڑی رکھی رہتی اور بار بار ان کی نظریں اسی طرف اٹھتی تھیں،جب بینائی بہت کمزور ہوگئی تو ہم میںسے جو سامنے سے گزرتا اس سے پوچھتیںرہتی’’ بیٹے! کیا بجا ہے؟اذان میں کتنی دیر ہے؟‘‘کثرت ذکر کی وجہ سے آخر حیات میں یہ حال ہوگیا تھا کہ باتیں کررہی ہوں یا خاموش لیٹی ہوں،ہر سانس کے ساتھ اندر سے خود بخود ’’اللہ اللہ‘‘کی آواز آتی رہتی تھی،جس کا احساس انہیں ہویا نہ ہو مگر ہم سب اہل خانہ ہمیشہ اس کا مشاہدہ کرتے تھے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۸۷)شوق جہاد: ایک مرتبہ مرض الوفات میں حضرت شیخ الہند کے خدام میں سے کسی نے آپ کو مغموم دیکھا تو وہ یہ سمجھے کہ زندگی سے مایوسی کی بنا پر پریشان ہیں،چنانچہ انہوں نے کچھ تسلی کے الفاظ کہنے شروع کئے،اس پر حضرت نے فرمایا: ’’ارے مرنے کا کیا غم؟غم تو اس بات کا ہے کہ بستر پر مررہا ہوں،ورنہ تمنا تو یہ تھی کہ کسی میدان جہاد میں مارا جاتا،سر کہیں ہوتا اور ہاتھ پائوں کہیں ہوتے‘‘۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱ ص۲۳۰)انتقال کے وقت فتوی: بعض دوستوں نے مجھے بتلایا کہ حضرت مفتی عزیزالرحمان صاحب کی وفات سے پہلے بھی ایک فتوی ہاتھ میں تھا جس کو موت نے ہاتھ سے چھڑا کر سینہ پر ڈال دیا تھا۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۲۷۳)