نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
پوجتے ہو، جسے خود تراشتے اور بناتے ہو۔ پھر فرمایا ترجمہ اس کے ساتھ موجود ہے، دیکھ اس سے تعزیہ کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، اگر میرا یقین نہ ہو، کسی اور عالم کے پاس جاکر اس کا معنی دریافت کر، اس نے کہا حضرت جب قرآن مجید میں ممانعت ہے، تو میں بھی توبہ کرتا ہوں، مجھے بھی مرید کرلیجئے۔ چنانچہ وہ بیعت ہوکر وہاں سے واپس ہوا۔عجیب وغریب: حضرت مولانا ضمیر احمد صاحب علیہ الرحمۃ نے حضرت چاند شاہ صاحب قدس سرہٗ کا ایک اور عجیب واقعہ ذکر فرمایا ، جسے آج کا مادیت زدہ ذہن آسانی سے قبول نہیں کرے گا، لیکن جو لوگ کرامات اولیاء کے معتقداور قائل ہیں، ان کے لئے اس میں کوئی استبعاد نہیں ہے، اس سے شاہ صاحب کی قوت کشفیہ اور تاثیر دعا کا اندازہ ہوتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ پھولپور کے اطراف کے ایک صاحب حضرت چاندشاہ صاحب کے مرید تھے وہ بیمار ہوئے، انھوں نے اپنے ایک عزیز کو حضرت چاندشاہ صاحب کی خدمت میں دعا کرانے اور تعویذ لینے کے لئے بھیجا، شاہ صاحب کی عام عادت یہ تھی کہ جب بھی کوئی شخص آتا پہلے اس کی خاطر مدارات کرتے، پھر مقصد دریافت فرماتے، لیکن یہ شخص گرمی کی دوپہر میں ٹانڈہ حضرت کی خانقاہ میں پہنچا، حضرت سے ملاقات ہوئی، حضرت نے خلاف معمول فوراً پوچھا کہ کیسے آئے؟ اس نے پوری بات عرض کی، آپ نے دعا کی اور فوراً تعویذ لکھا، اور فرمایا کہ ایک دم بھاگے چلے جاؤ کہیں رکنا مت، اور روٹی اور گڑ لے لو، راستہ میں کہیں کھیت میں پانی چل رہا ہو تو کھاکر پانی پی لینا اور جس حالت میں مریض ہو۔ اسے ضرور باندھ دینا، وہ بیچارہ الٹے پاؤں بھاگا، ادھر یہ ہوا کہ وہ شخص مرگیا، لوگ اس کا انتظار کرتے رہے، پھر غسل وغیرہ دے کر کفن پہنا کر نماز جنازہ پڑھ لی، اور تھوڑا انتظار کرکے اسے قبر میں اتار دیا، اتنے میں دور سے وہ آدمی آتا ہوا دکھائی دیا، لوگ رک گئے، وہ آدمی دوڑتا ہوا آیا، اور ساری بارت سنائی اور کہا کہ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا ہے کہ مریض جس حالت میں ہو اسے تعویذ پہنا دینا، لوگوں نے کہا کہ یہ مرگیا ہے، اب تعویذ پہنانے سے کیا فائدہ؟ مگر شخص مذکور نے کہا کہ نہیں، حضرت کا حکم ہے تو اسے پہنایا جائے گا، لوگوں میں اختلاف رائے ہوا، مگر اس شخص مذکور کے اصرار ، حضرت کے حکم، اور اس کی گرمی کے موسم کی سخت