نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
جلدی کرنے لگے،انہوں نے نہ مانا،آخر میر امام علی نے مولوی صاحب کو دھکہ دیا اوروہ گرپڑے، وہاں قندھاری بھی آٹالینے کو بیٹھے تھے،ان کو برا معلوم ہوا اور سب مل کر میر امام علی کو مارنے پر تیار ہوئے،مولوی صاحب نے قندھاریوں کو روکا،اور کہا کہ وہ ہمارا بھائی ہے،دھکا دیا تو ہم کو دیا،تم سے کیا مطلب؟وہ سب نادم ہوکر چپ ہورہے،مولوی صاحب نے ان کو آٹا دیا،وہ اپنے ڈیرے کو گئے،لوگوں نے سید صاحب سے جاکر یہ قصہ بیان کیا،جب اس دن مولوی صاحب رات کو حضرت کے پاس گئے تو آپ نے پوچھا کہ مولوی صاحب!آج میر امام علی نے تم سے کیا قصہ کیا؟ انہوں نے کہا،میرے نزدیک انہوں نے کچھ نہیں کیا،وہ تو بڑے نیک بخت آدمی ہیں،وہ آٹا لینے کو آئے،مجھ سے مانگا،ان کا وار نہ تھا،انہوں نے جلدی کی،اس میں ان کا دھکا میرے لگ گیا، بس اتنی بات تھی،سید صاحب یہ بات سن کر خاموش رہے،کسی نے یہ بات میر امام علی کو پہونچائی کہ مولوی عبدالوہاب صاحب نے تمہارے متعلق سید صاحب سے ایسی گفتگو کی ہے،وہ اپنی حرکت پر بہت نادم ہوئے اور اسی وقت سید صاحب کے سامنے آکر مولوی عبدالوہاب سے اپنی خطامعاف کرائی اور مصافحہ کیا۔(سیرت سید احمد شہید۔ج۲۔ص۹۴)قصاص کا ایک مقدمہ: لشکر مجاہدین میں غازی پور کے رہنے والے لاہوری نام کے ایک شخص تھے جو قاضی مدنی بنگالی کے گھوڑے کی خدمت کرتے تھے،شکل وصورت میں اگرچہ کم رو اور حقیر تھے مگر صالحیت اور خوش اخلاقی میں بے نظیر تھے،ایک شخص عنایت اللہ نام کے’ منڈیاہو ‘کے رہنے والے جماعت خاص میں تھے،سید صاحب کے پلنگ کے قریب رہا کرتے تھے،آپ کے پرانے رفیقوں میں تھے،آپ کے ساتھ بیت اللہ شریف کو بھی گئے تھے،اور آپ ان سے بہت محبت فرماتے تھے،یہ عنایت اللہ ایک روز لاہوری کے ڈیرے پر گئے،لاہوری اس وقت ڈیرے پر نہیں تھے،گھوڑے کے دانے بھگونے کا ایک طاش وہاں رکھا تھا،عنایت اللہ وہ طاش آٹا گوندھنے کے لئے اپنے ڈیرے پر اٹھا لائے،لاہوری اپنے ڈیرے پر آئے اور دانہ بھگونے کے لئے طاش تلاش کیا تو نہ پایا لوگوں سے پوچھا،کسی نے کہا کہ تمہارا طاش عنایت اللہ لے گئے ہیں،وہ عنایت اللہ کے پاس گئے اور کہا کہ تم ہمارا طاش بلا پوچھے اٹھا لائے ،ہم کو دانہ بھگونا ہے،ہمارا طاش ہم کو دو،اس وقت خشک آٹا