نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ترک کرکے کئی روز قیام فرمایا، اورعمر بھر اس مجلس سے متاثر رہے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر ج۱ ۔ص ۲۳۲)برادران وطن کی مہمان داری: حضرت تھانوی نے فرمایا کہ مولوی محمود رامپوری کہتے تھے کہ ایک مرتبہ میں اور ایک ہندو تحصیل دیوبند میں کسی کام کو گئے، میں حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی کے یہاں مہمان ہوا، اوروہ ہندو بھی اپنے بھائیوں کے گھر کھا پی کر میرے پاس آگیا، کہ میں بھی یہیں سوؤں گا، اس کو ایک چارپائی دے دی گئی، جب سب سوگئے تو رات کو میں نے دیکھا کہ مولانا زنانہ میں سے تشریف لائے،میں لیٹا رہا، یہ سمجھا کہ اگر کوئی مشقت کا کام کریں گے تو اٹھ کر مدد کردوں گا، ورنہ خوامخواہ اپنے جاگنے کا اظہار کرکے پریشان کیوں کروں؟ میں نے دیکھا کہ مولانا اس ہندو کی طرف بڑھے، اوراس کی چاپائی پر بیٹھ گئے، اوراس کے پاؤں دبانے لگے، وہ خراٹے لے کر سوتا رہا، مولوی محمود صاحب اٹھے اورکہا حضرت آپ تکلیف نہ کریں، میں دبادوں گا، مولانا نے فرمایا کہ تم جاکر سوؤ، یہ میرا مہمان ہے، میں ہی اس خدمت کو انجام دوں گا، مجبوراً میں چپ ہوگیا، اورمولانا اس ہندو کے پاؤں دباتے رہے۔(قصص الاکابر۔ص۲۰۴)احتساب نفس: مولانا محمد قاسم نانوتوی کا ارشاد ہے کہ نواب قطب الدین خاں (مظاہر حق کے مؤلف) بڑے پکے مقلد تھے، اورمولوی نذیر حسین صاحب پکے غیر مقلد، ان میں آپس میں تحریری مناظرے ہوتے تھے، ایک دن کسی مجلس میں میری زبان سے نکل آیا کہ اگر کسی قدر نواب صاحب ڈھیلے ہوجائیں، اورکسی قدر مولوی نذیر حسین صاحب اپنا تشدد چھوڑ دیں، تو جھگڑا مٹ جائے، میری اس بات کو کسی نے نواب قطب الدین خاں تک بھی پہونچا دیا، اورمولوی نذیر حسین صاحب تک بھی، مولوی نذیر حسین صاحب تو سن کر ناراض ہوگئے، مگر نواب صاحب پر یہ اثر ہوا کہ جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا، میرے پاس تشریف لائے، اورآکر میرے پاؤں پر اپنا عمامہ ڈال دیا، اورپاؤں پکڑ لئے، اوررونے لگے، اورفرمایا کہ بھائی جس قدر میری زیادتی ہو، خدا کے واسطے بتلا دو، مجھے ان کے حالات سے بہت سخت ندامت ہوئی، وہ بہت دیر تک روتے رہے۔ (واضح ہو کہ نواب