نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
۔۔۔ اسی لئے کان پکڑتے ہیں: لکھنؤ کے حکیم شمس الدین صاحب شفاء الملک ایک حاذق طبیب تھے اور نہایت دیندار اور اچھے عالم وفاضل ، انداز گفتگو ان کا بہت دل آویز تھا ، حضرت سے بیعت تھے ، حضرت نے انھیں اجازت بھی عطا فرمائی تھی ۔ ایک دن حضرت سے باتیں کررہے تھے ، کسی تقریب سے انھوں نے عرض کیا کہ حضرت بستر پر اگر چیونٹیاں چڑھ جائیں تو جب تک احتیاط سے ایک ایک چیونٹی باہر نہ کرلوں بستر پر جانہیں سکتا ، کیونکہ چیونٹی کان میں گھس جاتی ہے اور کان سے دماغ تک ایک منفذ ( راستہ) ہے ، چیونٹی اسی منفذ سے دماغ کے مغز تک پہونچ جاتی ہے اور اس سے ناقابل برداشت تکلیف ہوتی ہے ۔ حکیم صاحب کا سلسلۂ بیان رکاتو جامی صاحب بول پڑے : ’’ اچھا حکیم صاحب ! اب سمجھ میں آیا کہ بچے جب سبق بھولتے ہیں تو ان کا کان اسی لئے پکڑا جاتا ہے کہ کان سے دماغ تک منفذ ہے ، اسی سے ان کا دماغ کھل جاتا ہے ۔‘‘ حکیم صاحب یہ سن کر اچھل پڑے ، اور زور زور سے داد دینے لگے ، واہ جامی صاحب واہ! آپ کو خوب نکتہ سوجھا ، حکیم صاحب تو داد دیتے رہے اور جامی صاحب اس فکر میں پڑگئے کہ کہیں حضرت کو ناگوار خاطر نہ ہو ، لیکن حضرت بھی مسکرارہے تھے ۔چٹ آئی پٹ بچھی : ہمارے دوست مولانا عبد الرب صاحب جہانا گنج ضلع اعظم گڈھ کے رہنے والے اچھے ذی استعداد فاضل ہیں ، کچھ دنوں انھوں نے وصیۃ العلوم الہ آباد میں پڑھایا ہے ، ان کی درس گاہ میں چٹائی کی ضرورت تھی ، حضرت قاری صاحب بمبئی سے تشریف لائے تو ان کے لئے چٹائی لیتے آئے،جونہی اسٹیشن سے سامان لایا گیا،چٹائی ان کے حوالہ کردی ، انھوں نے فوراً ہی درسگاہ میں بچھا لیا۔جامی صاحب تھوڑی دیر کے بعد تشریف لائے،توکمرے کا رنگ بدلا ہو ادیکھا ، انھوں نے دریافت کیاتو بتایا گیا کہ حضرت قاری صاحب بمبئی سے لائے ہیں ، مسکراکر فرمایا: ’’اچھا ! چٹ آئی ، پٹ بچھی ۔‘‘ چٹائی اور چٹ آئی ، اور چٹ کی مناسبت سے پٹ، رعایت لفظی کا لطیف نمونہ ہے۔