نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
طلب علم میں انہماک : مولانا محمد یعقوب صاحب فرماتے ہیں کہ میں اپنے مکانِ مملوک میں جو چیلوں کے کوچہ میںہے، رہنے لگا تھا،مولوی صاحب(یعنی حضرت نانوتوی)بھی میرے پاس آرہے،کوٹھے پر ایک جھلنگا پڑا ہوا تھا،اسی پر پڑھتے رہتے،روٹی کبھی پکوا لیتے تھے اور کئی کئی وقت اسی کوکھاتے رہتے،میرے پاس آدمی روٹی پکانے والا نوکر تھا،اس کو کہہ رکھا تھا کہ جب مولوی صاحب کھانا کھاویں تو سالن دیدیا کرو،مگر بدقت کبھی اس کے اصرار پر لیتے تھے،ورنہ وہی روکھا سوکھا ٹکڑا چبا کر پڑے رہتے۔(ارواح ثلاثہ۔۲۱۵)طالب علمی کی مشقت : حضرت مولانا محمد یاسین صاحب(والد ماجد مفتی شفیع صاحب)نے طالب علمی کا پورا زمانہ عسرت اور تنگ دستی میں بسر کیا،ایک دن آپ گرمی کی دوپہر میں دارالعلوم کے اسباق سے تھک تھکا کر چھٹی کے وقت گھر پہونچے تو والدہ نے آبدیدہ ہوکر اپنے لائق فرزند سے کہا کہ :بیٹا! آج توگھر میں کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے،البتہ ہماری زمین میں گندم کی فصل تیار کھڑی ہے،اگر تم اس میں سے کچھ گندم کاٹ کر لائو تو میں ان کو صاف کرکے آٹا پیس کر روٹی پکادوںگی،سعادت مند بیٹا محنت اور بھوک سے درماندہ اسی گرمی کی دوپہر میں اپنی زمین کی طرف چل دیا،اور وہاں سے جس قدر بوجھ اٹھا سکتا تھا ،اتنے گندم کاٹ کر لے آیا،والدہ نے ان کو کوٹ چھان کر پیس کر آٹا بنایا،اور روٹی پکائی،اس طرح ظہر تک بھوک کا کچھ سامان ہوا،ظہر کے بعد اپنے اسباق کے لئے چلے گئے،ماں ،باپ اور بیٹے نے اسی فقر وفاقہ میں وقت گزارا مگر تعلیم میں فرق نہیں آنے دیا۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۸۲)شاہ اسماعیل صاحب کی ذکاوت : مولانا ذوالفقا علی دیوبندی(والد ماجد حضرت شیخ الہند)کی روایت ہے کہ شاہ اسماعیل صاحب،شاہ عبدالقادر صاحب سے ’’الافق المبین‘‘پڑھتے تھے،(اہل علم جانتے ہیں یہ کس درجہ دقیق کتاب ہے)اور اس طور پر پڑھتے تھے کہ دو دو چارچار ورق پڑھتے،کہیں شاہ اسماعیل صاحب کچھ پوچھ لیتے،کہیں شاہ عبدالقادر صاحب کچھ بتادیتے،ورنہ یونہی پڑھتے جاتے۔اس زمانہ میں