نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
لئے دیوار پر رکھ دیتے اور جو ٹکڑے بچ جاتے اس کو چھوٹا چھوٹا کرکے چڑیوں کے لئے اور دستر خوان کے ریزوں کو بھی ایسی جگہ جھاڑتے تھے جہاں چیونٹیوں کا بل ہو،حق تعالی کی نعمتوں کی قدر پہچاننا ،ان کو ٹھکانے لگانا،انہیں صاحب بصیرت بزرگوں کا حصہ تھا،آج تو ہر گھر میں بچا ہوا کھانا سڑتا ہے،نالیوں میں جاتا ہے،اس کا اگر اہتمام کیا جائے تو بہت سے غریبوں کا پیٹ بھرجائے۔ (ارواح ثلاثہ۔ص۳۴۶)صدقہ کا اصول: حضرت مفتی شفیع صاحب کا معمول یہ تھا کہ زکوۃ ادا کرنے کے علاوہ آپ کے پاس جب بھی کوئی رقم آتی تو اس کا ایک معین حصہ فوراً مصارف خیر میں خرچ کرنے کے لئے علیحدہ فرمالیتے،اور طے کیا ہوا تھا کہ آمدنی اگر محنت سے حاصل ہوئی ہے تو بیسواں حصہ (پانچ فی صد)اوراگر کسی محنت کے بغیر حاصل ہوئی ہے(مثلاً انعام،ہدیہ،تحفہ وغیرہ) تو اس کا دسواں حصہ فوراً علیحدہ نکال لیاجائے،صندوقچی میں ایک تھیلا آپ کے پاس ہمیشہ رہتا تھا،جس پر صدقات و مبرات لکھا رہتا تھا،تنگ دستی کا زمانہ ہو یا فراغی کا،آمدنی کا مذکورہ حصہ آپ فوراً اس تھیلے میں رکھ دیتے تھے،اور جب تک یہ حصہ ’’صدقات ومبرات ‘‘کے تھیلے میں نہ چلاجاتا،اس وقت تک اس آمدنی کو استعمال نہیں فرماتے تھے،اگر دس روپئے بھی کہیں سے آئے ہیں تو فوراً اس کے چھوٹے نوٹ بدلواکر ایک روپیہ اس تھیلے میں رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱ ص۴۵۶) حضرت مولانا تھانوی اپنی کمائی کا ایک تہائی خیرات کردیا کرتے تھے اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب اپنی کمائی کا ایک خمس خیرات کرتے تھے(یعنی پانچواں حصہ)حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب کو دیکھا کہ ان کے پاس تین چپاتیاں آتی تھیں،ان میں ڈیڑھ چپاتی خود تناول فرماتے ایک چپاتی خیرات کردیتے تھے اور آدھی کسی کو ہدیہ کردیتے تھے اور کھانے کے ریزہ جو دسترخوان پر گرتے وہ پرندوں یا چیونٹیوں کو ڈلوادیتے تھے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۲ ۔ ص۸۹۱) ٭٭٭٭٭٭