نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب عارفی نے فرمایا کہ نیاز صاحب ویسے بڑے باادب تھے حضرت سے بے پناہ عقیدت ومحبت کا تعلق رکھتے تھے،ان سے ایسی بے ادبی کا جملہ جان بوجھ کر نہیں نکلا تھا،بلکہ غالباً وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جن لوگوں نے آپ سے شکایت کی ہے وہ اللہ سے ڈریں،جھوٹ نہ بولیں،لیکن شدت جذبات کی بدحواسی میں ان کے منہ سے یہ جملہ حضرت ہی کے لئے نکل گیا۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۴۴۸)رضا بالقضا: حضرت مفتی شفیع صاحب نے اپنا واقعہ سنایا کہ: ’’میں نے دیوبند میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو اطلاع دی کہ فلاں گاڑی سے تھانہ بھون پہونچوںگا،اتفاق سے دیوبند والی گاڑی لیٹ ہوگئی،اور سہارن پور دیر سے پہونچی ، تھانہ بھون والی گاڑی چلی گئی،مفتی صاحب جب سہارن پور پہونچے تو معلوم ہوا کہ تھانہ بھون والی گاڑی اپنے وقت پر روانہ ہوگئی ہے،حضرت نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ اب بھاگ دوڑ بیکار ہے،سکون سے اسٹیشن کی مسجد میں جاکر لیٹ گیا کہ شام کی گاڑی سے چلاجائوںگا لیکن ایک ہندو بھی تھا،اسے گاڑی سے کسی ضروری کام سے جانا تھا،اسے جب یہ معلوم ہوا کہ گاڑی نکل گئی ہے تو غصہ سے لائن پر بیٹھ گیا،سرپر دھوپ،گرمی کا موسم،پسینہ سے شرابور،شام تک وہیں بیٹھا رہا کہ گاڑی کیوں گئی؟۔ یہ واقعہ بیان کرکے فرمایا کہ میں نے دیکھا تو اللہ کا شکر اداکیا کہ یہ تقدیر کا قائل نہیں ہے ورنہ اتنا پریشان نہ ہوتا،میں تقدیر کا قائل تھا،جہاں تک تدبیر کام کرسکتی تھی میں نے کوشش کی لیکن غیر اختیاری امرمیںمجبور تھا،میں آرام سے اللہ کی مشیت پر خوش اور وہ اپنی تدبیر کی ناکامی پرپریشان تھا لہٰذا دونوں شام کی گاڑی سے روانہ ہوئے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۲۔ص۱۱۰۲ )عجز وانکسار: امیر شاہ خان صاحب نے فرمایا کہ ایک پنجابی ڈاکٹر مکہ معظمہ گیا تھا،حافظ۔۔۔۔۔۔کی بیوی سے ان کا نکاح ہوگیاتھا،اس نکاح میں کچھ باتیں حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کی طبیعت کے خلاف بھی ہوئی تھیں،اور یہ ڈاکٹر بھی کچھ اچھا آدمی نہ تھا،چنانچہ اس کو میں مکہ سے جانے سے پہلے جانتا تھا،اس ڈاکٹر نے ایک مرتبہ گستاخانہ طور پر حضرت حاجی صاحب سے کہا کہ مجھے تو آپ کے