نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
تناول فرماتے۔ایک مرتبہ شہید ملت لیاقت علی خان مرحوم کی طرف سے دعوت تھی اور وہاں کھڑے ہوکر کھانے کا انتظام تھا،جسے حضرت والدصاحب ’’کھڑا کھیل‘‘کہتے تھے،حضرت والد صاحب حسب معمول اپنا کھانا لے کر ایک طرف جا بیٹھے،آپ کو دیکھ کر بعض دوسرے حضرات بھی وہیں آگئے،یہاں تک کہ وہ ایک محفل بن گئی،لیاقت علی خان مرحوم دعوت میں عام مہمانوں کے ساتھ مصروف تھے،کھانے کے اختتام پر وہ حضرت مفتی صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے: ’’مفتی صاحب !کھایاتو آپ نے ہے،ہم نے تو چرا ہے‘‘۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر ج۱۔ص۴۳۳)فضول گوئی سے اجتناب: مولانا محمد زکی مرحوم صاحبزادہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی چشم دید حکایت سناتے ہیں کہ ایک روز والد صاحب حسب معمول مغرب کے بعد حضرت میاںجی اصغر حسین صاحب قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، عموماً بعد مغرب عشاء تک یہ مجلس رہا کرتی تھی، خلاف عادت فرمایا کہ آج ہماری گفتگو عربی میں ہوگی، سبب پوچھنے کی جرأ ت تونہ ہوئی، خود ہی گفتگو کی ابتداء عربی میں کردی، پھر والد صاحب نے بھی جو کچھ کہا عربی ہی میں کہا، لیکن طرفین کو عربی میں مکالمہ کی عادت تو تھی نہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سوچ سوچ کر صرف ضروری باتیں کہی اور سنی گئیں، اوراپنی زبان میں جس بسط وتفصیل کے ساتھ کلام ہوا کرتا تھا، اورایک منٹ کی بات میں پانچ منٹ خرچ ہوجایا کرتے تھے، اس کا ایسا انسداد ہوا کہ وقت سے پہلے ہی مجلس ختم ہوگئی، اس وقت فرمایا کہ زندگی کا ایک ایک منٹ بڑا قیمتی بلکہ بے بہا جواہرات ہیں، ان کو فضول کام یا کلام میں صرف کرنا بڑی بے عقلی ہے، میں جانتا تھا کہ عربی میں گفتگو کریں گے تو صرف ضروری کلام ہوگا، اورفرمایا کہ ہماری مثال اس دولت مند انسان کی سی ہے، جس کے خزانے میں بے شمار گنیاں بھری ہوئی ہیں، اوروہ بے دریغ خرچ کررہا ہے،مگر اسی طرح ایک ایسا وقت بھی آگیا، جب خزانہ خالی ہونے کے قریب آیا، اورچند گنی چنی گنیاں رہ گئیں، تو اب وہ بہت دیکھ بھال کر خرچ کرتا ہے، ہاتھ روکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں عمر کے بے شمار جواہرات عطا فرمائے تھے، جن کو ہم بے دریغ خرچ کرچکے ہیں، اب عمر کا آخر ہے، خزانہ خالی ہونے کو ہے، اس لئے ایک ایک منٹ دیکھ بھال