نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ڈھائی ہزار ماہانہ ہے ، خیال رہے کہ یہ بات ۱۹۷۳ء کی ہے ، ہوٹل کی سیر تفصیل کے ساتھ مولانا نے کی اور مجھے بھی کرائی ۔ ہوٹل میں بہت سے رہائشی کمرے تھے ، ہر کمرے کی آرائش الگ تھی ، رنگ الگ تھا ، کمرے کی دیواروں میں جو رنگ استعمال کیا گیا تھا ، کمرے کی ہر چیز اسی رنگ کی تھی ، چادر ، تکیہ ، ٹونٹیاں ، صابن، صابن دانی ، دروازے ، ان کی سٹکنیاں ، غسل خانے کی بالٹیاں ، غرض سب ایک رنگ کے ، مولانا نے بتایا کہ کمرے کا کرایہ ایک شب کا اسّی روپئے ہے ، ہوٹل میں چائے پانچ روپئے کی ہے ، میں اکتا گیا ، آخر بیزار ہوکر بآواز بلند مولانا سے کہا: وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہِ اَزْوَاجًا مِنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیْہِ ( طٰہ: ۱۳۱) ہم نے ان کو جو مختلف انواع واقسام کی دنیاوی خوشنمائیاں دے رکھی ہیں ، جن میں ان کی آزمائش ہے ، ان کی طرف نگاہ بھی نہ اٹھاؤ۔مولانا نے جب میری بیزاری عروج پر دیکھی تب فرمانے لگے کہ جلدی چلنا چاہئے ، ہم لوگ گاڑی پر بیٹھے اور جب مسجد میں پہونچے تو آٹھ رکعتیں تراویح کی ہوچکی تھیں، مجھے بڑا صدمہ ہوا ، یہ وہ وقت تھا جب حضر میں میری تکبیر اولیٰ فوت نہ ہوتی تھی ، بالخصوص رمضان میں اس کا بہت اہتمام تھا ، اس نامسعود دعوت کی وجہ سے فرض کی جماعت فوت ہوئی ، آٹھ رکعت تراویح گئی۔ میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ، اور طے کرلیا کہ اب ان مولاناکے ساتھ مجھے تعلق رکھنا ہی نہیں ہے میں نے ان سے بعد میں صفائی سے کہہ دیا کہ آپ یہاں کے پرانے ہیں ، آپ کی دعوتیں ہوتی رہیںگی ، مجھے دعوتوں میں لے جانے سے معاف ہی رکھئے پھر میں ان حضرت سے دور ہی دور رہاخدا کی مہربانی: میری پُرسکون زندگی میں ایک مرتبہ اضطراب کی ہلچل مچی۔گھر میں مدرسہ کی طرف سے ملی ہوئی صرف دال روٹی پر اکتفا تھی ، گوشت ،ترکاری، تیل مصالحہ سے ہمارے برتن ناآشنا تھے ، لیکن ہنسی خوشی اوقات بیت رہے تھے ، غربت تھی ، مگر اس کا احساس نہ تھا ، نہ کوئی پریشانی اور دل تنگی تھی۔ا سی دوران مغرب کی نماز کے بعد عشا کے قریب مدرسہ میں میرے دو بہت عزیز دوست آئے ، ایک میرے مخدوم زادے ، میرے اخص الخاص محسن استاذ حضرت مولانا محمد افضال الحق صاحب مدظلہ…جنھوں نے اس وقت میرے سر پر دست شفقت رکھا تھا جب ہر طرف سے میں طمانچوں کا مستحق تھا اور طمانچے لگ بھی رہے تھے ، اس سنگین وقت میں انھوں نے اپنی آغوش میں