نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
پر ہے،اور بھی نہ جانے کیا کیا کہا؟دادا ابا کو دنیا میں والد صاحب سے بڑھ کر کوئی عزیز نہ تھا،مگر ترک جماعت پر اس قدر گرفت فرمائی اور تمام محلہ والوں اور چھوٹی اولاد کے سامنے ،یہ حضرت والد صاحب کی انتہائی سعادت مندی تھی کہ انہوں نے ذرا بھی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا،بلکہ ندامت اور شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے سب کے سامنے معافی مانگی،بعد میں فرمایا کرتے تھے کہ اگر اس دن اتنی لتاڑ نہ پڑتی تو عمر بھر احساس نہ ہوتا کہ ہم سے کوئی غلطی سرزد ہوئی تھی۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۲۔ص۱۰۶۹)سفر میں عبادت کا معمول : مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی عموماً پیدل سفر کرتے تھے،اور سامان سفر لوٹا، لنگی، لکڑی،مشکیزہ ہوتا تھا،جہاں شام ہوجایا کرتی تھی وہیں شب بسر کرتے تھے۔ایک مرتبہ شام ایک ایسے گائوں میں ہوئی جہاں سب ہندو تھے،کوئی مسلمان نہ تھا،وہاں والوں سے کہا کہ رات کو رہنے کے لئے جگہ بتادو،ایک شخص نے گائوں کے باہر کولھو پر بتادیا،آپ کے پاس روٹی تھی ،اس کو نوش فرمایا،اتفاقاً وہی شخص رات کو کسی کام سے جنگل میں آیا تو حضرت کو قرآن پڑھتے سنا،تمام شب بیتابی میں گزاردی،اور صبح کو حاضر خدمت ہوکر عرض کیا کہ رات جو تو پڑھ رہا تھا وہ جلدی سے مجھے بھی پڑھا دے،اس کے بعد آپ کو اپنے گھرلے گیااور وہاں اس کے بیوی بچے سب مسلمان ہوگئے۔(ارواح ثلاثہ۔ص۱۵۷)ذوق عبادت : رمضان المبارک میں حضرت شیخ الہند کے یہاں عبادت کا اہتمام بہت بڑھ جاتا تھا، پوری رات مصروف عبادت رہتے،تراویح کے بعد حاضرین سے کچھ دیر خطاب فرماتے،ظاہر ہے کہ گفتگو دین ومذہب اور تعلق مع اللہ کے دائرے سے باہر نہ ہوتی ہوگی،اس کے بعد چند منٹ آرام فرماکر پھر نوافل کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے۔مولانا خود حافظ قرآن نہ تھے،کوئی دوسرا سناتا، دوچار پارے پڑھ کر ایک حافظ آرام کرتا تو دوسرا شروع کردیتا،حافظ بدلتے رہتے لیکن مولانا اپنی جگہ جمے رہتے،تمام رات یہی اہتمام رہتا،جذب وشوق کا یہ پیکر باری تعالی کے حضور کھڑا رہتا یہاں تک ’’حتی توارت قدماہ‘‘کی سنت نبوی پر عمل کی صورت پیدا ہوجاتی۔