نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
میں آگیا ، خوب اچھی طرح سمجھ میں آگیا،یہ جھوٹا ہے ، شریر ہے وغیرہ، حضرت مفتی صاحب کا رنگ بدل گیا ، خوش ہوگئے ، پھر سہ بارہ نہیں سمجھایا ، سب طلبہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تمہاری جرأت کا انتقام لے گا ، مگر مجھے پروا نہیں۔ میں نے ان کی ہمت پر آفریں کہی اور بہت شاباشی دی ، ان کا حوصلہ بڑھایا ، اس وقت ہم میں سے کوئی سوچ نہیں سکتاتھا کہ عزیزالرحمن جیسے لاابالی اور بے ہنگم طالب علم سے علم اور دین کی کوئی خدمت بن پڑے گی ، زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ بڑے شاعر ہوجائیں گے ، لیکن اس کے برعکس یہ بہترین مدرس اور معتبر مفتی ہوئے ، بمبئی میں یہ فتویٰ کے مدار ہیں ، اور خصوصیت کے ساتھ سراجی کے موضوع پر تو انھیں وہ کمال حاصل ہوا کہ وراثت کے بڑے سے بڑے حساب کو یہ منٹوں میں زبانی طور پر حل کرلیتے ہیں ،سراجی تو انھیں نوکِ زبان ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی قلبی خوشی اور دعاؤں کا اثر ہے۔سادگی: مفتی ابوالقاسم صاحب کا ایک منتخب حلقۂ احباب تھا ، جس میں نیک ، شریف اور سنجیدہ نوجوان شامل تھے ، مفتی صاحب نے اپنی مہربانی سے مجھے اس کا رکن بنایا ، عام دنوں میں یہ حلقہ ایک دوسرے کے قریب رہتا ، ہر ایک دوسرے کے حال میں شریک ہوتا،مگر اس کے ساتھ ہفتہ میں ایک وقت حلقے کا ہر رکن کھانے میں شریک ہوتا ۔ اتوار کا دن گزار کر شب میں یہ پروگرام ہوتا ، جس میں تمام رفقاء اپنے اپنے گھر سے اپنا کھانا ٹفن میںلے کر کسی ایک جگہ جمع ہوتے اور سب مل کر بے تکلفی کی محفل میں کھانا کھاتے ، دینی وتربیتی باتیں ہوتیں ، مسائل کا مذاکرہ ہوتا ، ایک دوسرے کے مسائل سنے جاتے ، ان کے حل کئے جانے کی تدبیریں سوچی جاتیں ، بڑا خوشگوار ماحول ہوتا ، مفتی صاحب میر مجلس ہوتے ، سنجیدگی اور سبک روحی کی ایک لطیف فضا ہوتی۔ میںبھی مدرسہ سے اپنا کھانا ٹفن میںلے کر حاضر وتا ، ایسے موقع پر مفتی صاحب کی طبعی خوبیاں نمایاں ہوتیں ، مفتی صاحب بایں جلالت شان ہر خدمت میں سب سے بڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کرتے ، اور اس لطیف طریقے سے کہ دوسرے منہ دیکھتے رہ جاتے ، اور وہ خدمت انجام دے کر اس طرح آسودہ اور مطمئن ہوتے ، جیسے انھوں نے اپنا فرض ادا کردیا ہو۔