نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
حضرت مولانا چادر سے منہ ڈھانپے لیٹے ہیں،دیرتک یہ لوگ بیٹھے رہے،مگر آپ نے منہ نہیں کھولا آخر ایک صاحب بولے کہ حضرت ہم تو زیارت کے لئے حاضر ہوئے تھے،آپ نے منہ ڈھانپے ہوئے رنج اور غصہ کے ساتھ جواب دیا کہ میری زیارت میں کیا دھرا ہے؟آخر اس مجمع کے ایک سفید ریش شخص نے سمجھا کہ رقاصہ کا ساتھ لانا اس محرومیت کا سبب ہواہے،معذرت کے طور پر عرض کیا کہ حضرت!ہم تو رنڈی کو ساتھ نہیں لائے،بیٹی والوں کی حرکت ہے،آپ نے بے ساختہ ارشاد فرماکہ’’میاں !بیٹی والے کسی کے خدا تو ہیں نہیں کہ ان کاکہنا مانا ہی جائے‘‘۔ اس جواب سے حاضرین پراس درجہ اثر ہوا کہ بہتیرے دل بھر آئے،آخر جب لوگ چلے گئے تو آپ نے چادر منہ ہٹائی اور اٹھ بیٹھے۔(تذکرۃ الرشید۔ج۲۔ص۸)من کثر سواد قوم۔۔۔: آپ(حضرت گنگوہی) کے جد امجد حضرت عبدالقدوس گنگوہی علیہ الرحمہ کا عرس جس کے بند کرنے پر آپ قادر نہ تھے،اس درجہ آپ کو اذیت پہونچاتا تھا کہ صبر کرنا دشوار اور آپ کے لئے زبردست مجاہدہ تھا،اول اول آپ ان دنوں گنگوہ چھوڑ دیتے اور رامپور تشریف لے جایاکرتے تھے،مگر آخر میں ایذائِ قلبی کے برداشت کرنے کی آپ کو قوت دی گئی،تو یہ زمانہ بھی آپ کو اپنی خانقاہ میں ہی رہ کر گزارنا پڑا،اس موسم میں آپ کو اپنے منتسبین کا آنا اس درجہ ناگوار گزرتا تھا کہ آپ اکثر ناراض ہوجاتے اور ترک تکلم فرمادیتے تھے،ایک بار جناب مولانا محمد صالح آپ کی زیارت کے شوق میں بے تاب ہوکر گھر سے نکل کھڑے ہوئے،اتفاق سے عرس کا زمانہ تھا،اگرچہ آنے والے خادم کو اس کا وہم بھی نہیں گزرا مگر امام ربانی قدس سرہ اپنے شیدائیت سنت سے دل کے ہاتھوں مجبور تھے،آپ سے نہ ہوسکا کہ ان کی مزاج پرسی کریں،یا محبت ومدارات سے پیش آئیں،آپ نے بجز سلام کاجواب دینے کے ان سے یہ بھی نہ پوچھا کہ روٹی کھائی یا نہیں؟اور کب آئے ہو ؟یاکیوں آئے ہو؟مولوی محمد صالح کو دودن اسی طرح گزرگئے،حضرت کا رخ پھرا ہوا دیکھنا جس درجہ ان کو شاق گزر رہا تا تھا اس کو انہیں کے دل سے پوچھنا چاہئے،ہر چند اس کی وجہ سوچتے مگر کچھ سمجھ میں نہ آئی،حاضر خدمت ہوتے اور خاموش بیٹھ کر رنجیدہ ومحزون واپس آجاتے، آخر اس حالت کی تاب نہ لاکر حاضر خدمت ہوئے اور روکر عرض کیا کہ حضرت!مجھ سے کیا قصور