نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ایک بیوہ کی خدمت: شاہ صاحب کی زندگی کیا تھی؟ خدمت خلق کا ایک حسین و دلآویز مرقع تھی، ایک سے بڑھ کر ایک خدمت! لیکن ان کے پوتے حضرت مولانا محمد عثمان صاحب علیہ الرحمہ ایک ایسی خدمت کی خبر دیتے ہیں جس کو پڑھ کر طبیعت دنگ رہ جاتی ہے، وہ حضرات جو شان مشیخت رکھتے ہیں، ان کے بارے میں اس طرح کے کام کا تصور بھی مشکل ہے، مگر شاہ صاحب کا رنگ ہی اور تھا۔ مولانا لکھتے ہیں کہ گاؤں کی ایک بیوہ خاتون نے حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں فریاد کی کہ میرا بیٹا کلکتہ میں ہے، اور آنے کا نام نہیں لیتا، شاہ صاحب کا دل اس کی اس مصیبت سے بے قرار ہوگیا، انھوں نے اسے تسلی دی، اور وعدہ کیا کہ میں تمہارے بیٹے کو لے کر آؤں گا، شاہ صاحب نے صرف اس مقصد کے لئے کلکتہ کا سفر کیا، اور وہ بھی پیدل! تن تنہا نکل پڑے، اﷲ جانے کتنی مدت سفر میں لگی ہوگی؟ پھر کلکتہ میں اسے ڈھونڈھنے میں کتنی مشقت ہوئی ہوگی؟ مگر شاہ صاحب اسے لے کر ہی آئے،اور دکھیاری ماں کے حوالے کیا اور اس کی خوشی کا سامان کیا۔ طریقت بجز خدمت خلق نیستکرامات: سلطان شاہ صاحب بہت باکرامت بزرگ تھے، مگر ان حضرات کے یہاں کرامت سے بڑھ کر استقامت کا درجہ ہے، کرامات کی طرف نہ ان کو التفات تھا، اور نہ ان کے متوسلین کو اس کا زیادہ اہتمام تھا، مولانا محمد عثمان صاحب ایک مشہور کرامت کی خبری دیتے ہیں کہ ایک عورت نے شاہ صاحب کے پاس بطور امانت کے خاصی مقدار میں اشرفیاں اور چاندی کے سکے رکھے، اس کی خبر چوروں کو ہوگئی، رات میں چوروں نے گھر میں نقب لگائی اور ایک مقفل صندوق جس میں لوہا بھرا ہواتھاباہر لے گئے ، لیکن گھر سے نکلتے ہی راہ گم ہوگئی ، صندوق کو گھر کے پاس ہی ایک کھیت میں چھوڑا، اور راستہ تلاش کرنے لگے، رات بھر سرگرداں رہے، مگر راستہ نہ ملا، اسی میں صبح ہوگئی، صبح کوچوروں نے شاہ صاحب سے معافی مانگی، چوری سے توبہ کی، یہ واقعہ ایسا مشہور ہوا کہ آج تک ان کے گھر کی طرف کسی نے نگاہ غلط انداز بھی نہیں ڈالی۔ شاہ صاحب کی اہلیہ محترمہ لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتی تھیں، مگر جب کبھی شاہ صاحب