نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
کمیٹیاں کیں،جلسے کئے،گھر کے بیٹھکوں میں بیٹھ بیٹھ کر مشورے ہوئے کہ آج مولوی رشید احمد نے سہ دری بنوائی ہے،کل کو کچھ اور عمارت بنواکر اپنی ملکیت کا دعوی کردیں گے،چلو ان کو اس مکان سے بے دخل کریں اور جو کچھ لاگت اس تعمیر میں لگی ہے ،وہ ان کو دے کر قبضہ چھڑائیں، چنانچہ ایک بڑا مجمع پیر زادوں کا آپ کے پاس آیا اور حرف مطلب زبان پر لایا۔ عام طور سے جیسا کہ دستور ہے کہ یوں سمجھ رہے تھے کہ قبضہ چھوٹنا آسان نہیں ہے، مولاناسے مخالفت بھی ہوگی،لٹھ بھی چلیں گے،دوچار سر بھی پھوٹیں گے،اور خدا جانے کیا کیا کچھ وقوع میں آئے گا،اس لئے جلسہ کاجلسہ اور جتھے کاجتھہ حاضر خدمت ہوا۔ حضرت مولانا کو کچھ خبر نہ تھی کہ مجمع نے یہ تکلیف کیوں اٹھائی؟اور کس غرض سے آئے؟ آخر ان سے ایک شخص آگے بڑھ کر یوں کہنے لگا کہ مولوی صاحب!ان لوگوں کا منشا یہ ہے کہ آپ اس جگہ کو چھوڑ دیں،اور جو لاگت خرچ ہوئی ہے وہ لے لیویں،اس وقت آپ کو آنے والوں کا عندیہ معلوم ہوا اور آپ نے نہایت سادگی کے ساتھ جواب دیا کہ بہت اچھا،اتنی سی بات کے لئے مجمع کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟اگر کسی ادنی آدمی اور اپنے یہاں کے نائی،دھوبی سے بھی یہ پیغام کہلا بھیجتے تب بھی مجھ کو چھوڑ دینے میں تأمل نہ ہوتا،یہ فرماکر آپ نے تیس چالیس روپیہ جو کچھ بھی مکان کی لاگت میں جیب خاص سے خرچ کئے تھے،لے لئے،البتہ جو روپیہ چندہ سے اس میں صرف ہوتا تھا،وہ نہ لیا اور اسی وقت طلبہ سے فرمایا کہ بستر،کپڑے اور لکھنے پڑھنے کا سامان کتابیں وغیرہ سب نکال لو اور حجرے خالی کردو۔ بعد میں ان پیر زادوں نے بہت معافی مانگی اور دوبارہ تشریف آوری کی درخواست کی جو حضرت نے قبول فرمالی۔(تذکرۃ الرشید۔ج۱۔ص۹۷)ایثار وبے نفسی: سید صاحب کے لشکر میں مولوی عبدالوہاب صاحب ایک فرشتہ خصلت بزرگ آٹا تقسیم کرنے کاکام کرتے تھے،ایک روزآٹا تقسیم کررہے تھے ،میر امام علی عظیم آبادی آٹا لینے کو آئے،وہ نووارد تھے،اور بڑے قوی اور جسیم تھے،آٹا وار سے تقسیم ہوتا،جو پہلے آتا،وہ پہلے پاتا،جو پیچھے آتا،وہ پیچھے پاتا،وہ پہلے مانگنے لگے،مولوی صاحب نے کہا کہ تمہارا بھی وار آتا ہے،ٹھہر جائو، وہ