نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
تدریس اور ثواب : حضرت مولانا سہول صاحب عثمانی، حضرت شیخ الہند کے ممتاز شاگردوں اور دارالعلوم کے ان مقبول اساتذہ میں سے تھے جن کو بیک وقت حدیث اور فقہ دونوں میں اللہ تعالی نے کمال عطا فرمایا تھا۔ایک مرتبہ انہوں نے حضرت شیخ الہند سے سوال کیا کہ حضرت!ہم دینی علوم پڑھاتے ہیں،اور ان پر تنخواہ بھی لیتے ہیں،تو کیا ایسی تدریس پر کچھ ثواب ملے گا؟حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ مولوی صاحب!ثواب کی بات کرتے ہو،اس تدریس میں جو کچھ کوتاہیاں ہم سے ہوئی ہیں اگر ان پر مواخذہ نہ ہوتو اسی کو غنیمت سمجھو۔ مفتی شفیع صاحب تشریحاً فرماتے ہیں کہ حضرت کا مقصد یہ نہ تھا کہ تنخواہ لینے کے بعد ثواب کی کوئی امید نہیں،کیوںکہ اگر نیت بخیر ہوتو ان شاء اللہ اس میں ثواب کی امید ہے،لیکن یہ اس وقت ہے کہ جب کہ تنخواہ کا حق پورا پورا ادا کیا ہو،اور اگر مقررہ وقت سے کم پڑھایا،غیر حاضریاں کیں اور پڑھانے کے لئے جس محنت اورمطالعہ کی ضرورت ہے اس میں کوتاہی کی تو تنخواہ کا حلال ہونا بھی مشکوک ہے۔حضرت شیخ الہند نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۲۳۷)کج دماغ لوگ : ایک مرتبہ مشرقی پاکستان کے بڑے دینی مدرسہ کا جلسہ تھا،جس کے مہتمم صاحب سے حضرت والد صاحب(مفتی شفیع صاحب) کے دیرینہ مراسم تھے،اس جلسے میں انہوں نے اس وقت کے سربراہ مملکت کو بھی مدعو کیاتھا،اتفاق سے اس وقت سربراہ مملکت ایک ایسے صاحب تھے جن سے والد صاحب کو دینی معاملات میں کسی خیر کی توقع نہ تھی،اس لئے آپ نے طے کیا ہوا تھا کہ مجھے ان صاحب سے ملاقات نہیں کرنی ہے،جب جلسے کا دن آیا تو صدر صاحب کی آمد آمد ہوئی توحضرت والد صاحب نے مدرسہ کے مہتمم صاحب سے فرمایا کہ میں ان صاحب سے نہ ملنا چاہتا ہوں نہ یہ پسند کرتا ہوں کہ ان سے میرا سامنا ہو،اس لئے آپ مجھے کوئی ایسا کمرہ دیدیجئے جہاں میںسو جائوں،انہوں نے ایک کمرہ حضرت والد صاحب کے لئے مخصوص کردیا،اور آپ وہاں سو گئے،جب صدر صاحب تشریف لائے اور انہیں مدرسہ کا معائنہ کرایا گیا تو معائنہ کے دوران مہتمم