نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
رحمۃ واسعۃ۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ۔ص۵۳)مسائل کا استحضار: کوفہ کے مشہور امام حدیث حضرت وکیع بن الجراح امام ابو حنیفہ کی ذکاوت وذہانت کا ایک عجیب واقعہ سناتے ہیں جس سے امام صاحب کے استحضار مسائل اور سرعت انتقال ذہنی کا اندازہ ہوتا ہے،فرماتے ہیں ہم لوگ امام صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی،اس نے عرض کیا کہ میرے بھائی نے وفات پائی،اس کے ترکے میں کل چھ سو دینار تھے،لیکن لوگوں نے اس میں سے مجھے صرف ایک دینار دیا،امام صاحب نے فرمایا کہ فریضہ کس نے تقسیم کیا؟اس نے جواب میں امام صاحب کے مشہورشاگرد ،صوفی وزاہد حضرت دائود طائی کا نام لیا،آپ نے برجستہ فرمایا کہ جب یہ تقسیم دائود طائی نے کی ہے تو یقینا تمہارا اتنا ہی حصہ ہے،اچھا یہ بتائو کہ تمہارے بھائی جس کا انتقال ہوا ہے،کی بیٹیاں ہیں کہ نہیں؟اس نے اقرار کیا، فرمایا:اس کی ماں بھی زندہ ہے؟اس نے ہاں کی،فرمایا کہ بیوی بھی ہے؟اس نے عرض کیا جی، پھر ارشاد ہوا کہ بارہ بھائی اور ایک بہن؟کہنے لگی کہ سچ ہے،اب آپ نے مسئلہ سمجھایا کہ مسئلہ کی رو سے دو تہائی دو بیٹیوں کا حصہ ہے،اس لئے چار سو تو وہ لے گئیں،ماں کے لئے چھٹا حصہ متعین ہے، چنانچہ ایک سو اس کا ہوا،بیوی کے لئے شریعت نے آٹھواں حصہ مقرر فرمایا ہے،لہٰذا وہ ۷۵؍ دینار لے گی،اب کل پچیس دینار بچے،بارہ بھائیوں نے دودو دینار پائے،اور تمہیں اس کا نصف ایک دینار ملا،یہ سن کر عورت خاموشی واپس چلی گئی۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ۔ص۳۷)امام صاحب کی دقت نظر: حضرت عبداللہ بن مبارک ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ سے ایک سوال کیا کہ ایک شخص ایک شخص کا ایک درہم اور دوسرے کے دودرہم ہیں،تینوں آپس میں مخلوط ہوگئے،اور تمیز باقی نہ رہی کہ کون درہم کس کا ہے؟پھر ان میں سے دو درہم ضائع ہوگئے،اب ایک درہم کس کو دیا جائے؟امام صاحب نے جواب دیا کہ باقی دونوں کے درمیان مشترک ہوگا،دو تہائی دو درہم والے کو ملے گا،اور ایک تہائی ایک والے کو۔ یہ جواب سن کر حضرت عبداللہ بن مبارک قاضی ابن شیرمہ کے پاس گئے ،ان سے بھی یہی مسئلہ دریافت کیا،انہوں نے پوچھا کہ یہ مسئلہ کسی اور سے بھی معلوم کرچکے ہو؟میں نے کہا ہاں،