نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ابھی پورا ہوگیا ہے،اور جب حضرت نے بیان دیکھا اور آپ کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کے لئے میں تمام رات جاگتا رہا ہوں تو حضرت نے صمیم قلب سے اتنی دعائیں مجھے دیں کہ ان کی حلاوت آج تک محسوس ہوتی ہے،اور یہی دعائیں میرا بڑا سرمایہ ہیں۔(البلاغ مفتی اعظم نمبرج۱۔ص۲۵۶ )الولد سر لابیہ : مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں: اس مقدس واقعہ کے ساتھ اپنے کسی قصے کا ذکر کرنا مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگانے اور خاک اور عالم پاک میں رشتہ جوڑنے کے مرادف ہے،لیکن’’بلبل ہمیں کہ قافیہ گل شود بس است‘‘کے پیش نظر عرض ہے کہ: ۱۹۷۳ء کی تحریک ختم نبوت میں جس کی قیادت حضرت شاہ صاحب کے شاگرد رشید محدث عصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس قرہ کررہے تھے،جب یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش ہوا،اور مرزاناصر وغیرہ نے اپنے بیانات داخل کئے تو اسی قسم کے ایک بیان کی ترتیب کے لئے حضرت بنوری قدس سرہ نے احقر کو راولپنڈی بلایا،اس وقت حضرت والد صاحب علالت کی بنا پر صاحب فراش تھے،اور عموماً ہمارے لئے سفر کو پسند نہیں فرماتے تھے،لیکن اس کام کے لئے انہوں نے نہایت خوشی کے ساتھ اجازت دی۔احقر چند گھنٹوں میں راولپنڈی پہونچا،اور حضرت بنوری قدس سرہ کی زیر ہدایت کام شروع کیا،بیان کا ایک حصہ احقر کو اور دوسرا حصہ حضرت مولانا سمیع الدین صاحب کو مرتب کرنا تھا،وقت چونکہ کم تھا،اوربیان مفصل تیار کرناتھا،اس لئے ایک ہفتہ ہم لوگ دن رات کام میں لگے رہے،اور اتفاق سے ایک رات میں پل بھر کے لئے نہیں سویا، حضرت بنوری قدس سرہ کو اس کا علم ہواتو احقر کو بہت دعائیں دیں،اور اگلے روز حضرت والد صاحب کو فون کرکے فرمایا کہ حضرت!مقدمہ بہاول پور کی یاد تازہ ہورہی ہے،حضرت شاہ صاحب نے آپ کو بلایا تھا اور میں نے تقی میاں کو بلایا ہے،آپ ایک رات بیان کی ترتیب میں جاگتے رہے تھے،آج رات یہ بھی مطلق نہیں سوئے،اس صوری مشابہت پر میں اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کروں ،کم ہے،اللہ تعالی ان بزرگوں کی برکت سے اس مشابہت کو حقیقی بنادے اور اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۲۵۷۔حاشیہ)