نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
وقت بھی اس میں بہت لگتا، ایک دن عصر کی نماز پڑھ کر حضرت والا نے قاری ریاست علی صاحب کاہاتھ پکڑا اور گفتگو کرتے ہوئے اپنے کمرے میں لے گئے اور بہت دیر تک باتیں کرتے رہے، قاری صاحب کے رفقاء گھبرارہے تھے کہ ٹرین نہیں ملے گی اور رات ہوجانے پر کوپا سے مئو تک کے لئے یکے بھی نہ مل سکیں گے، بہت پریشانی ہوگی اور حضرت کو کوئی ضروری بات کرنی تھی، وقت گزرتا جارہاتھا یہ یقین ہوگیاکہ اب تو گاڑی ملنے کاکوئی سوال ہی نہیں، خاص طریقے پر کوئی یکہ وغیرہ طے کرنا پڑے گا، اس شش وپنج میں آدھ گھنٹہ سے زیادہ گزر گیا، پھر حضرت والا قاری صاحب کو لئے ہوئے نیچے آئے اور شبلی موذن سے۔۔۔۔۔۔جو قاری صاحب کے رفقاء میں تھے ۔۔۔۔۔۔ فرمایاکہ قاری صاحب کولیکر جاؤ اور تیز تیز جاؤ ورنہ گاڑی چھوٹ جائے گی، انھوں نے اپنے دل میں کہاکہ گاڑی تو چھوٹ چکی تاہم حضرت کا ارشاد تھا بہت تیزی سے لپکے ہوئے کوپاگنج پہونچے تو معلوم ہواکہ گاڑی اب سے کوئی آدھ گھنٹہ پہلے اپنے وقت پر پلیٹ فارم سے چھوٹ چکی ہے، لیکن چند ہی قدم چل کر رک گئی اور ابھی تک رکی ہوئی ہے یہ لوگ جلدی جلدی ٹکٹ لے کر اس پر سوار ہوگئے، سوار ہونا تھا کہ ٹرین چل پڑی ۔کھلی کرامت: حضرت والا کے چھوٹے داماد جناب مولاناارشاداحمد صاحب کی روایت ہے کہ جن دنوں حضرت کو نکسیر کی شکایت تھی الہ آبادہی میں قیام پذیر تھے، حکیم مسعود صاحب اجمیری مرحوم اور دوسرے اطباء کا علاج چل رہاتھا ،صورت حال یہ تھی کہ ہر تھوڑی دیر کے بعد نکسیر کا دورہ ہوتا اور بہت زیادہ خون ناک کی راہ سے نکل جاتا ،اطباء عاجز تھے حضرت کو گفتگو اور ہر طرح کی حرکت سے منع کردیاگیاتھا۔اسی دوران کبھی کبھی وقفہ طویل ہوتا تو حضرت والا ضروری باتیں فرمادیتے ،کبھی مواخذہ اور عتاب کا سلسلہ بھی چل پڑتا۔ایک دن حکیم اجمیری مرحوم صاحب نے حضرت سے عرض کیاکہ جب تک صحت نہ ہوجائے تعلیمی واصلاحی مواخذوں سے بھی پرہیز فرمایاجائے ورنہ خون کا آنا بند نہ ہوگا ،انھوں نے کہنے کا انداز ایسا اختیار کیاتھا جو حضرت کو پسند خاطر نہ ہوا ،حضرت نے فرما یا کہ اچھا اگر میں یہ سلسلہ جاری رکھوں اور خون نہ آئے تو ؟ انھوںنے عرض کیاکہ ایسا ہوہی نہیں سکتا ،حرکت ہوگی تو خون آئے گا۔ انھوں نے سوال وجواب کی صورت اختیار کرلی، حضرت