نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
لگے، خدام ہر وقت خدمت کے لئے مستعد رہتے،سب سے زیادہ خدمت صاحبزادۂ محترم مولانا شاہ محمد ہارون صاحب نے کی، وہ ہر وقت خدمت میں حاضر رہتے، اگر وہ نہ ہوتے، اور کوئی ضرورت ہوتی تو انھیں کو بلواتے، آخر میں غذا بالکل بند ہوگئی تھی، دوا پینی بھی مشکل تھی، اور بالکل آخر میں معاملہ عجیب ہوگیا تھا، اﷲ والوں کی شان واقعی عقلوں سے بالاتر ہوتی ہے، اطباء نے کھانے پر اصرار کیا کہ ضعف بہت ہوجائے گا، تو کھانے کا جب وقت ہوتاتو اشارہ کرتے کہ کھانا لاؤ یا دو اکا وقت ہوتا، تو اشارہ کرتے کہ دوا لاؤ، مولانا محمد ہارون صاحب کھانا لاتے، یا دوا لاتے، تو فرماتے کہ تم کھاؤ یا دوا پیو، صاحبزادے صاحب کھاتے، جب دو تین لقمے کھالیتے تو اشارہ کرتے کہ بس! دوا بھی وہی پیتے، مولانا اشارہ فرماتے کہ بس! تو وہ رک جاتے ، غرض صاحبزادۂ محترم کھاتے پیتے، اور حضرت مولانا کو تشفی ہوجاتی تھی، اسی حال میں کئی دن گزرے۔ یکم جمادی الاخریٰ ۱۳۵۳ھ کو عصر کی نماز کے بعد حضرت مولانا نے اپنے صاحبزادوں میں سے ایک ایک کا نام لے کر پکارا، وہ لوگ حاضر ہوئے، ان سے فرماتے کہ کچھ سناؤ، آخر میں مولانا محمد ہارون صاحب سے فرمایا کہ تم کچھ سناؤ، انھوں نے قرآن کی آیت: قُلْ إنَّ صَلَواتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَّوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ،پڑھ کر سنائی، حضرت بہت خوش ہوئے، آپ کی تمام زندگی اسی آیت کے مطابق تھی اس لئے انشراح بہت ہوا، زبان سے فرمایا الحمد ﷲ اب تشفی ہوگئی۔ پھر آپ نے ان کے مقام قلب پر انگلی رکھ دی، اور کچھ دیر تک رکھے رہے، اﷲ جانے اس میں کیا راز تھا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد حضرت کی روح اعلیٰ علیین میں حاضر ہوگئی۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ جنازہ میں بڑا مجمع ہوا، دوسرے دن صبح کو خانقاہ کے ایک حصے میں، اﷲ کے اس برگزیدہ ولی کو زمین کے سپرد کردیا گیا، رہے نام اﷲ کا۔عبادت کا اہتمام: مولانا محمد ادریس صاحب کے بیان کے مطابق، مولانامولانا ریاض احمد صاحب مغرب کے بعد اوابین کی پابندی سنت مؤکدہ کے مثل کرتے۔ دلائل الخیرات، اور حزب البحر کے پڑھنے کا روزانہ معمول تھا، دیکھنے والوں کی عینی شہادت ہے کہ برسوں نماز تہجد قضا نہیں ہوئی۔