نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
انتقال ہوگیاہے، میں سخت حیران و پریشان ہواکہ نہ میں نے اس کی کوئی خدمت کی اورنہ میں اسے دیکھ سکا، اسی پریشانی میں مدرسہ کے باہر نکلا، باہر ایک لمبا چوڑا ساچبوترہ ہے دیکھتاہوں کہ اس پر ایک قبر ہے اوروہ کھلی ہوئی ہے ، مجھے خواب میں یہ محسوس ہواکہ یہ صاحبزادیٔ رسول حضرت فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کی قبر ہے، میں قبر کے کنارے بیٹھ کررونے لگا، اوراماں اماں پکارنے لگا ، پھر دیکھتاہوں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا قبرسے باہر لیٹی ہوئی ہیں،اورسر اقدس میرے زانو پر ہے،آنکھیں بند ہیں میں اوربے قرار ی کی حالت میں اماں اماں رٹنے لگا،اماں نے آنکھیں کھول دیں،فرمایاکیابات ہے؟ میں نے کہا دیدی(بہن)کہاںہے؟ انھوںنے فرمایا جنت میںہے، مت روؤ،مجھے قبر میں اتاردو،میں نے بہت احترام سے اماں کو قبر میں اتار دیا، اورمٹی برابر کردی، اتنے میں آنکھ کھل گئی، اللہ جانے ا س کی کیا تعبیر ہے؟۔جرأت رندانہ: میں جب گھر آکر رہنے لگا، اور حفظ قرآن کے ساتھ گھریلو مشاغل میں ضم ہوا،تو والد صاحب کو خیال ہوا کہ اب خانہ آبادی ہوجانی چاہئے۔ میرا نکاح اس وقت ہوگیا تھا ، جب میں عمر کی دسویں منزل میں تھا ، اس وقت ہمارے معاشرے میں نابالغی کے نکاح کا بکثرت رواج تھا ، غالباً ۱۹۶۰ء یا ۱۹۶۱ء رہا ہوگا ، گاؤں ہی میں ایک جگہ رشتہ طے ہوا ، اور مسجد میں مجھے بیٹھا کر کسی نماز کے بعد دادا مرحوم نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور ایجاب وقبول کرادیا ۔ میں قدرے باشعور تھا ،مگر نابالغ تھا ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد رخصتی کی سلسلہ جنبانی ہونے لگی ،میری اہلیہ تین بہنیں ہیں، دو بڑی بہنوں کا نکاح ایک ساتھ ہوا تھا،تیسری بہن کی نسبت طے تھی مگر ابھی نکاح نہ ہوا تھا، سسرال کی جانب سے تحریک تھی کہ تینوں کی بارات ساتھ میں آئے ، جس کا نکاح نہیں ہوا ہے ، اس کا صرف نکاح ہوجائے ،اور دو کی رخصتی ہوجائے ۔ تیاریاں گفتگو کی حد تک شروع ہوگئی تھیں ۔ میرے نانا مرحوم شادی بیاہ کے معاملات میں گاؤں کے چودھری تھے ، اس مسئلہ میں ان سے مشورہ ضرور لیا جاتاتھا۔ وہ زیادہ پڑھے لکھے تو نہیں تھے مگر وجاہت اور رعب داب میں ممتاز تھے ۔ گاؤں میں ان کا بڑا لحاظ تھا ، وہ گھر پر تشریف لائے اور والد صاحب سے اس موضوع پر گفتگو کرنے لگے ، کتنے باراتی جائیں گے ؟ کون کون ہوں گے؟ بارات کے لوازم کو کس کس طرح برتا جائے گا وغیرہ؟