نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
مرض الوفات میں علمی انہماک: حضرت تھانوی علیہ الرحمہ کے ذہن پر احکام القرآن کی تالیف کا بڑا تقاضا تھا،اور آپ نے اس کا ایک حصہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب اور دوسرا مولانا ظفر عثمانی صاحب اور تیسرا مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی کے سپردفرمادیا تھا،مرض وفات کے زمانے میں حضرت ایک روز آنکھیں بند کئے لیٹے تھے،اچانک فرمایا کہ کیا مفتی شفیع ہیں،مفتی صاحب موجود تھے،عرض کیا جی، میں حاضر ہوں، حضرت نے فرمایا ’’والمحصنٰت‘‘میں جو یہ آیت ہے اس سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتاہے،یہ فرماکر حضرت نے فرمایا کہ دیکھو فلاں آیت سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے،اس کو ضبط کرلو۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۴۰)مولانا عبدالحی صاحب کی وفات: مولانا عبدالحی صاحب مرض بواسیر میں مبتلا تھے،کوئی دوا مفید نہیں ہورہی تھی،روزبروز بیماری بڑھتی جارہی تھی،یہاں تک کہ نزع کی حالت ہوگئی،کسی وقت آپ بے ہوش ہوجاتے ،کسی وقت ہوش میں آتے تھے،یہ حال سن کر سید صاحب آپ کے پاس تشریف لائے،جو مولانا کو ذرا ہوش آیا تو سید صاحب کو دیکھا اور پہچانا،آپ نے پوچھا:کیا حال ہے؟فرمایا:نہایت تکلیف ہے، آپ میرے واسطے دعا کریں،اور میرے سینے پر اپنا قدم رکھ دیں کہ اس کی برکت سے اللہ تعالی اس مصیبت سے نجات دیں،آپ نے فرمایا :مولانا صاحب !آپ کے سینے میں قرآن وحدیث کا علم ہے،یہ مناسب نہیں کہ میں اس پر اپنا قدم رکھوں،پھر آپ نے بسم اللہ کرکے اپنا داہنا ہاتھ رکھ دیا مولانا کو قدرے تسکین ہوئی اور کئی بار ’’اللہ الرفیق الاعلی‘‘اپنی زبان سے کہا اور انتقال فرمایا۔انا للہ وانا الیہ راجعون(سیرت سید احمد شہید۔ج۲۔ص۶۱)مولانا خواجہ سید احمد صاحب نصیرآبادی کی وفات: مولانا خواجہ احمد صاحب نصیرآبادی علیہ الرحمہ کی مفصل روداد مولوی حکیم فخرالدین صاحب(جد امجد مولانا ابوالحسن علی ندوی)کی زبان سے سنئے: ’’حضرت دموی المزاج تھے،ایک مرتبہ خدا کی مشیت سے ضعف بہت ہوگیا،خدام کی مجلس میں آپ نے ذکر فرمایا،ایک ناواقف نے قصداً نہیں بلکہ قوت پیدا کرنے کے خیال سے