نمونے کے انسان |
زرگان د |
ہوئے،گھنٹہ دو گھنٹہ بیٹھنے کی سکت ہوگئی اور کچھ لکھنے کے لائق ہوگئے تو سب سے پہلا کام یہی کیا کہ ان کا تذکرہ لکھا،حالانکہ اس کے علاوہ بھی بہت سے ضروری لکھنے کے کام تھے،مثلاً تسہیل الجلالین کاکام،بلکہ ایک مرتبہ میں نے پوچھا بھی کہ تسہیل الجلالین کا کام کب شروع کریں گے؟اس کو جلد ہی شروع کردینا چاہئے،تو فرمایاکہ پہلے یہ قرضے ادا کرلوں اس کے بعد تسہیل الجلالین پر ہاتھ لگائوں گا۔ اسی وقت مولانا نے یہ بھی تہیہ کیا تھا کہ اپنے محبوب استاذ حضرت مولانا افضال صاحب جوہر قاسمی کی مفصل سوانح لکھیں گے،اور اس کے لوازمات بھی اکٹھا کرلئے تھے مگر افسوس کہ یہ کام شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔ قلم وقرطاس کی اس جدائی کے بعد(جس کا ابھی تذکرہ ہوا ہے)مولانا نے جب قلم اٹھایا تو بہت سے لوگوں کے تذکرے لکھے۔مولانا افضال صاحب کا مفصل تذکرہ لکھا،مولانا زین العابدین صاحب پر تین تفصیلی مضامین لکھے،مولانا فاروق صاحب حیدرآبادی پر لکھا،اپنے ہم وطن دوست حافظ عیسیٰ صاحب کا تذکرہ لکھا،مولانا کے خصوصی جواںمرگ شاگرد مولانا ثناء اللہ صاحب کا ایک حادثہ میں انتقال ہوگیا تھا،جس کا مولانا قلب پر خاصا اثر رہا،ان کا بھی تذکرہ لکھ کر دل کا بوجھ کچھ ہلکاکیا۔ بہت سے مرحومین کو کتابوں کے صفحات پر زندگی عطا کرنے والے ہمارے مولانا نے بھی بالآخر ۲۸؍ ستمبر ۲۰۱۳ء کواپنی زندگی کا سفر مکمل کیا،اور آخرت کی منزل پر پہونچ کر کمر کھول دی،انہوں نے تاحیات صالحین کے تذکرے کئے ا ور ان کی حیات وخدمات پر لکھتے رہے،ان کو دنیا سے روشناس کراتے رہے۔ دعا ہے کہ ان کا یہ وظیفہ حیات ان کے شاگرد اور ان کی اولاد کے توسط سے ہمیشہ قائم ودائم رہے اور تذکرہ صالحین جو مہم انہوں نے چھیڑ رکھی تھی،وہ ہمیشہ باقی رہے،اور ان کے لئے بہترین صدقہ جاریہ بنے۔ آمین محمد عرفات اعظمی ۱۶؍۸؍۲۰۱۵