نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
اندر کوئی کمال نظر نہیں آتا،رہی آپ کی شہرت تو یہ مولوی رشید احمد صاحب اور مولوی قاسم صاحب کی وجہ سے ہوئی،پھر مجھے حیرت ہے کہ مولوی رشید احمد صاحب اور مولوی قاسم صاحب آپ سے کس طرح بیعت ہوگئے؟اللہ رے نفوس قدسیہ!کہ اس کوسن کر ذرا تغیر نہ ہوا،مسکرا کر فرمایا کہ ہاں بھائی،بات تو بہت ٹھیک کہتے ہو،مجھے خود بھی حیرت ہے کہ یہ حضرات میرے کیوں معتقد ہوگئے ہیں؟اور لوگ مجھے کیوں مانتے ہیں؟۔(ارواح ثلاثہ۔ص۱۳۷)شاہانہ تحمل: خاں صاحب نے فرمایا کہ مجھ سے مولوی محمد اسماعیل صاحب کاندھلوی نے بیان فرمایا کہ حضرت سید احمد شہید صاحب کے لوگوں میں ایک صاحب سید امیر علی تھے،جو نہایت متقی اور پرہیز گار تھے،یہ صاحب نواب وزیرالدولہ کے مقرب تھے اور اہل حاجت کی سفارشیں بہت کیا کرتے تھے،ایک مرتبہ انہوں نے نواب صاحب سے کوئی سفارش کی اور نواب صاحب نے وعدہ فرمالیا،مگر کسی وجہ سے اس کا ایفا نہ ہوسکا،اس پر سید امیر علی شاہ کو غصہ آیا اور سردربار نواب صاحب کو تھپڑ ماردیا،نواب صاحب کاظرف دیکھئے کہ کچھ نہیں کہا اور خاموش ہوگئے،اس کے بعد جو سید صاحب کے عزیز واقارب ریاست میں موجود تھے،نواب صاحب ان کے پاس گئے اور ان سے سید امیر علی کا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ مجھے اس واقعہ سے ذرا ملال نہیں ہوا،انہوں نے تھپڑ مارا ہے، اگر وہ میرے جوتے مارلیتے تب بھی مجھے ملال نہ ہوتا،مگر ان سے ذرا اتنا کہہ دیا جائے کہ حق تعالی نے ریاست کاکام میرے سپرد فرمایا ہے،اور اس میں وقار قائم رہنے کی ضرورت ہے اور سر دربار ایسا کرنے سے سیاست میں خلل آتا ہے،اس لئے وہ دربار میں اس کالحاظ رکھیں،اور تنہائی میں انہیں اختیار ہے،چاہے وہ مجھے جوتے مارلیں۔(ارواح ثلاثہ۔ص۲۹۰)نزاع سے گریز: حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس سرہ نے عرصۂ دراز تک غیر آباد رہنے کے بعد شیخ عبدالقدوس گنگوہی کی خانقاہ آباد فرمائی اور اس کے حجرہ میں درس وتدریس کا سلسلہ بھی قائم فرمادیا،پھر ضرورت کے باعث اس میں ایک سہ دری بھی حجرہ کے سامنے تعمیر کرادی، تو شیخ کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے پیرزادوں میں بے چینی پھیلنے لگی،اور بات کا بتنگڑ بنانے لگے ،