نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
عبدالوہاب صاحب نے کہا کہ (جو حضرت کے بڑے نسبتی بھائی تھے)آپ ایسی گفتگو کیوں فرماتے ہیں؟لوگ اور پریشان اور مغموم ہوتے،فرمایا :میںمسئلہ بیان کررہا ہوں،اسی اثنا میں دو عورتوں نے بیعت کی درخواست کی،آپ نے اس کو عصر پر ملتوی رکھا،پھر فرمایا کہ جلد ہاتھ میں ہاتھ دو،پھر چند کلمات نصیحت آمیز،نمازوروزہ کی پابندی،لڑائی جھگڑے سے بچنے اور شرک و بدعات کے چھوڑنے کی تاکیدیں فرمائیں،اور فرمایا کہ مہلت زیادہ نہیں،پھر اس کے بعد فرمایا کہ ہمارے گھر میں رسوم وبدعات جیسے سہ ماہی،چہلم وغیرہ کچھ نہیں ہوتی،رسول مقبولﷺ کی پیروی ضرور پیش نظر رہنی چاہئے،اسی اثنا میں برادرم سید محمد ایوب نے پھر اللہ یار خان کو نماز کی یاددہانی کرائی،حضرت نے فرمایا کہ معاملہ درست ہوگیا،پھر محمد مصطفی خان،حاجی نعمت اللہ(جو آپ کے مریدین میں سے ہیں)کا نام لے کر فرمایا کہ ان کو اور دوسرے بردران دینی کو علی العموم سلام علیک کہنا،پھر اللہ یار خان کی گود چھوڑدی،پائوں پھیلا دئیے،بدن بستر پر رکھ دیا،اور فرمایا کہ دروازہ کھول دو،لوگوں کو باہر کردو،اب کوئی مجھ سے مخاطب نہ ہو،کہ اس وقت میں اللہ کے ساتھ مواجہہ میں ہوں،پھر لب مبارک کو جنبش ہوئی اور روح مقدس بکمال بے تعلقی شاداں وفرحاں اوج فردوس کی طرف پرواز کرگئی،اور مضمون کلام’’ الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب‘‘ ظاہر ہوا۔انا للہ وانا الیہ راجعون(کاروان ایمان وعزیمت۔ص۱۵۵)مولانا حکیم سید فخرالدین کا انتقال: مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے والد ماجد مولانا حکیم سید عبدالحی صاحب اپنے والد بزرگوار مولانا حکیم سید فخرالدین صاحب کے انتقال کا واقعہ اس طرح سناتے ہیں کہ: ’’۴؍رمضان المبارک کو تپ، لرزہ کے ساتھ لاحق ہوئی،اور عادت کے مطابق اسہال شدت سے شروع ہوگئے،دوسرا روز یوم الراحۃ تھا،تیسرے روز پھر لرزہ کے ساتھ باری آئی،اور اس قدر اسہال واستفراغ(قے)ہوا کہ ضعف وناطاقتی سے بے ہوش ہوگئے،تمام رات غافل رہے،اور یوم الراحۃ کو بھی نقل وحرکت کی طاقت نہ رہی،اسی طرح روز بروز ضعف غالب آتاگیا، ساتویں روز یوم الراحۃ کو تمام دن ہوشیار وبیدار رہے،اور اپنے ہاتھ سے لوگوں کو تپ لرزہ کی گولیاں جو آپ کے معمولات میں سے تھیں،اپنے قلم دان سے نکال کر دیتے رہے،اور بیری کی لکڑی جس