نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
تجارت اور دیانت: نقشہ تو آپ نے امام صاحب کی خریداری کا دیکھا،اب فروخت کا حال سنئے،جعفر بن عون عمری کہتے ہیں کہ ایک بڑھیا امام صاحب کی دوکان پر آئی اور خز کا ایک تھان طلب کیا،امام صاحب نے ایک عمدہ تھان اسے دکھایا جو اسے پسند آیا،مگر وہ گراں تھا،بڑھیا کہنے لگی کہ میں ایک کمزور عورت ہوں،اور یہ رقم امانت کی ہے،آپ ازراہ کرم ایسا کریں کہ جتنے میں یہ تھا یعنی آپ کو پڑا ہے،اتنے ہی میں میرے ہاتھ فروخت کردیں،فرمایا بہت اچھا،اس کے دام تم چار درہم دیدو، بڑھیا سخت حیران ہوئی،اس نے بے ساختہ کہا کہ آپ دیکھ رہے کہ میں بوڑھی عورت ہوں،میرے ساتھ توآپ کومذاق نہ کرنا چاہئے،امام صاحب نے ارشاد فرمایا کہ میں مذاق نہیں کرتا،میںنے دو تھان خریدے تھے،ان میں سے ایک تھان کی قیمت مجھے اتنی مل گئی ہے جتنے میں دونوں لئے تھے، اگر کمی تھی تو چار درہم کی اس لئے یہ تھان مجھے چار درہم میں پڑا ہے۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ص ۵۱) یہ امانت وصداقت تھی جس نے امام صاحب کو صرف کوفہ ہی میں نہیں تمام دنیا میں ہر دل عزیز بناکر چھوڑا،مشہور محدث حضرت وکیع بن الجراح نے بالکل سچ فرمایا ہے کہ: کان ابو حنیفۃ رضی اللہ عنہ عظیم الامانۃ جلیلاً فی نفسہ یوثر ربہ علی کل شئی ولو اخذت السیوف فی اللہ لاحتمل۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ۔ص۵۰) امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ زبردست امانت دار،جیل القدر آدمی تھے،ہر چیز پر خدا کی رضا کو ترجیح دیتے،خدا کی راہ میں اگر ان پر تلوار بھی اٹھ جاتیں تو انہیں خوشی سے گوارا تھا۔ پڑوسی کا حق: امام ابویوسف علیہ الرحمہ ایک واقعہ سناتے ہیں کہ امام صاحب کے پڑوس میں ایک موچی رہتا تھا،وہ رات میں شراب پی کر گھر لوٹتا اور غل غپاڑہ مچاتارہتا،ہر روز رات میں یہ ہنگامہ بپا رہتا،اسی نشہ کی حالت میں وہ یہ شعر دہراتا رہتا: اضاعونی وای فتی اضاعوا لیوم کریہۃ وسداد ثغر لوگوں نے مجھے ضائع کردیا،افسوس !کیسے جوان مرد کو ضائع کیا،جو لڑائی کے دن اور سرحدوں کی حفاظت کے وقت کام آتا۔