نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
گدڑی میں لعل حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند کے علمی مقام ، ان کی رفعت شان اورجلالت قدرسے کو ن ہے جو ناواقف ہوگا،لیکن اسی کے ساتھ واقعہ یہ ہے کہ وہ سادگی وبے نفسی اوربے تکلفی وانکساری کی اس منزل پر تھے، کہ اہل نظر بھی ابتدا میں دھوکہ کھاجاتے، اورانہیں یہ احساس نہ ہوتا کہ جس ہستی کو ہم اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں، یہ علم وعمل کے کسی خاص مرتبہ پر فائز ہے، علماء دیوبند کے احوال کے ثقہ ترین راوی جو براہ راست حضرت نانوتوی سے بیعت کا تعلق رکھتے ہیں، یعنی امیرشاہ خان صاحب، اس سلسلہ کاایک دلچسپ اورسبق آموز قصہ سناتے ہیں، پورا قصہ ارواح ثلاثہ میں مذکور ہے، ہم الفاظ میں کسی قدر تصرف کے ساتھ اسے نقل کرتے ہیں: ’’واقعہ یہ ہے کہ ملیح آباد لکھنؤ کے رہنے والے ایک بزرگ حکیم عبدالسلام جو بہت خوش بیان اورصاحب علم تھے، ان سے خان صاحب کے روابط تھے، انہیں حضرت نانوتوی کی خدمت میں حاضر ہونے اوران سے ملاقات کا بے حد شوق تھا، خان صاحب سے اصرار کرتے کہ جب تم حضرت نانوتوی کی خدمت میں جاؤ تو مجھے بھی ساتھ لے چلو، لیکن امیر شاہ خان صاحب اس سے پہلو تہی کرتے، وہ فرماتے ہیں کہ: مجھ بدنصیب کے دل میں ایک خیال جم گیا تھا، وہ یہ کہ حکیم صاحب بہت خوش بیان اور گویا آدمی ہیں، نواب واجد علی کے طبیب خاص رہ چکے ہیں، اورحضرت مولانا کی خوش بیانی اورپر گوئی یاتو وعظ میں ہوتی ہے، یا سبق پڑھانے میں، اورمعمول کی گفتگو ان کی قصباتی ہوتی ہے، اور یہ زمانہ مولانا کی علالت کا تھا، اوراسباق نہ ہوتے تھے، اس لئے ایسا نہ ہو کہ مولانا سے ملنے کے بعد یہ ان کو خاطر میں نہ لائیں، اوران سے بد اعتقاد ہوجائیں، اوراختلاف خیال کے سبب میرے اور ان کے لطف صحبت میں رخنہ واقع ہو۔