نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
سے اجازت لے کر تقریر کی ،اور تقریر میں حضرت والا کی بے حد تعریف و توصیف فرمائی ۔ جب وہ تقریر ختم کرکے بیٹھے تو چونکہ حضرت والا کو روبرو تعریف کرنی بہت ناپسند تھی اس لئے فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نے اس قدر تعریف کی مگر میںاس گدھے کا بیوقوف مالک نہیں ہوں کہ آپ کی تعریف سے میرا نفس پھو ل جائے ۔’’من آنم کہ من دانم‘‘ اور آپ نے اس گدھے کے مالک کا قصہ اس طرح بیان فرمایاکہ ایک شخص کے پاس نہایت خراب اور بے کار گدھا تھا کہ اگر اس کے اوپر سواری کریں تو سوار کو زمین پر گرادیتا ۔اگر سامان لادیں تو اس کو بھی زمین پر پھینک دیتا ۔وہ شخص اس گدھے سے تنگ آچکا تھا۔اس نے سوچا کہ شہر میں لے جاکر اس کو فروخت کردے۔ راستہ میں جانوروں کی خرید وفروخت کرانے والا ایک دلال ملا۔ اس نے پوچھا کہ اس گدھے کو کہاں لے جارہے ہو۔اس نے کہا کہ فروخت کرنے کے لئے ۔دلال نے کہا مجھے دلالی میں دو میں فروخت کرادیتا ہوں ۔اس شخص نے منظور کرلیا ۔دلال گدھے کوبازار میں لے گیا اور اس گدھے کی بہت تعریف کرنے لگا کہ سواری میں نہایت تیز رفتار اور نہایت عمدہ با ر بردار ہے اور ایسا اچھا ہے اور ایسا اچھا ہے ۔اس گدھے کا مالک دلال کی تعریف سن کر ایسا مغرور ہوا کہ دلال سے کہنے لگا کہ ایسا گدھا میں کیوں بیچوں میں اس کو نہیں بیچتا۔ دلال نے کہامیاں تمہارا گدھا تو وہی ہے جو زمین پر گرادیا کرتا تھا۔ میں نے تو بیچنے کے لئے اس طرح تعریف کی اور تم اتنے احمق ہو کہ اس کی تعریف سن کر اترانے لگے اور بیچنے سے انکار کردیا ۔ حضرت والا کے ہر ہر عمل سے تواضع و کسر نفسی ٹپکتی تھی۔ایک مربتہ حضرت مولانا مفتی فیاض نور صاحب( جو کہ حضرت والا کے مرید وں میں تھے اور حضرت کے ہم عصر بھی تھے)نے حضرت والا سے عرض کیا کہ کوئی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں۔ حضرت والا نے فرمایا کہ میںا للہ تعالی کی زمین پر چل رہا ہوں اور اس کی دی ہوئی روزی کھا رہا ہوں اس سے بہتر کرامت کیا ہوسکتی ہے؟ ورنہ میرے ا عمال توا یسے ہیں کہ زمین پھٹ جاتی اور مجھے دھنسا دیا جاتا۔خدا کا بھیجا ہوا: میرے شیخ و مرشد حضرت مولانا عبد الواحدصاحب مد ظلہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی