نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
چونکہ رمضان کے دن ہیںاور آپ روزے سے ہیں،اس لئے آپ اس اکبر الکبائر کے مرتکب ان شاء اللہ ہرگز نہ ہوں گے،کل سید صاحب کے پاس چل کر اپنے جھگڑے کا تصفیہ کرالیجئے گا،آپ نے محسن خان سے فرمایا کہ چونکہ تمہارے ماموں کا مکان قریب ہے،وہیں افطار کرکے اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس آجانا۔ وہ سب دوڑتے ہوئے گئے،محسن خان ایک فریق کی طرف دوڑے اور شیخ لطافت نے دوسرے فریق کا رخ کیا،اور آٹھوں فریقین کے درمیان کھڑے ہوگئے اور دونوں کو مصالحت پر راضی کیا،افطار کے وقت محسن خان کے ماموں کے گھر سے افطاری آئی ،افطار اور نماز مغرب کے بعد سب تکیے واپس ہوئے،اس کے بعد قضیہ بھی طے ہوگیا۔(سیرت سید احمد شہیدج۲ص۴۸۷)بھلا میں تنہا کھالوں؟: مقام میحنی میں ایک روز شام تک غلے کا انتظام نہ ہوسکا،باورچیوں نے آپ(سید احمد شہید) کے لئے آدھ سیر کے بقدر کھانا تیار کرلیا،جب آپ کو اس کی اطلاع دی گئی کہ آپ کے لئے کھانا تیار ہے، تو فرمایا: ’’استغفرا للہ!بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں تنہا کھانا کھالوں؟اور لشکر فاقے سے رہے‘‘ مخلصین نے عرض کیا کہ یہ آدھ سیر کھانا جو تیار ہے سارے لشکر کے لئے تو کافی نہیں ہے،اسے ہم کس کو کھلائیں؟فرمایا:جس کا جی چاہے کھالے لیکن مجھ کو یہ گوارا نہیں کہ میں تنہا کھالوں اور تمام مسلمان فاقے سے رہیں،غرض وہ کھانا اسی طرح رکھا رہا،ایک پہر رات گزرنے کے بعد غلے کا انتظام کرنے والے خبر لائے کہ لشکر کے لئے غلہ آرہا ہے،مولوی عبدالوہاب صاحب ،قاسمِ غلہ نے عرض کیا کہ کھانا تیار ہے،آپ نوش فرمالیں،فرمایا:یہ کھانا تمام لشکر کے لئے کافی ہوجائے گا؟ مولوی صاحب نے عرض کیا ،ضرورت بھر کے لئے کافی ہوجائے گا،اس کے بعد آپ نے کھانا تناول فرمایا۔(سیرت سید احمد شہید۔ج۲۔ص۴۹۰)شفقت علی المخلوق کا نادر نمونہ: صاحبِ’’ ذکر جلی‘‘ ایک قصہ مولوی محمد علی رامپوری کی زبانی تحریر کرتے ہیں کہ ایک روز مولوی اسماعیل شہیدصاحب ،مولوی شاہ عبدالعزیز صاحب کے مدرسہ کے دروازہ پر کھڑے