نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ہوا؟جس کی یہ سزا مل رہی ہے،میں تو اس کا متحمل نہیں ہوسکتا،اللہ کے واسطے معاف فرمادیجئے،اس وقت ان کا ہاتھ حضرت نے اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا کہ میرا قصور نہیں کیا جس کو میں معاف کردوں،خدا کی خطا کی ہے،اس سے معافی چاہو،اس وقت انہوں نے سمجھا کہ عرس کے ایام میں میرا گنگوہ آنا آپ کو ناگوار گزرا،چنانچہ معذرت کے طور پر عرض کیا کہ حضرت!خدا شاہد ہے،مجھے عرس وغیرہ سے ساتھ ابتدا ہی سے شوق نہیں ،واللہ نہ اس وقت میں اس خیال سے گنگوہ آیا اور نہ آج کل یہاں عرس ہونے کا مجھے علم تھا۔ حضرت امام ربانی نے فرمایا :اگرچہ تمہاری نیت عرس کی شرکت کی نہ تھی،مگر جس راستے میں دو آدمی عرس کے آنے والے آرہے تھے اسی میں تیسرے تم بھی تھے،جناب رسول اللہﷺ فرماتے ہیں :’’من کثر سواد قوم فہو منہم‘‘۔(جس نے کسی قوم کی تعداد بڑھائی اس کا شمار اسی میں ہے)۔(تذکرۃ الرشیدج۲۔ص۹)غلط مسئلہ بتانے پر نکیر: ایک مرتبہ پیر جی محمد حسن نے جو حضرت گنگوہی کے خادم تھے ایک گائوں کی مسجد میں رہتے تھے،گائوں والوں سے یہ روایت بیان کردی کہ جمعرات کو ارواح موتی چھٹی پاتی ہیں کہ اپنے اپنے گھر جاکر سب کو دیکھ بھال آویں،گائوں والوں نے حضرت مولانا سے اس روایت کی تصدیق چاہی،آپ نے فرمایا کہ یہ مسئلہ کون کہتا ہے؟انہوں نے کہا کہ پیر جی،جو آپ کے پاس رہتے ہیں،حضرت نے پیر جی سے پوچھاکہ یہ مسئلہ تم نے کہاں سے کہا؟پیر جی نے عرض کیا کہ حضرت!’’مقاصد الصالحین‘‘ میں لکھا ہے،حضرت نے بہت ناخوشی ظاہر فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ایسی کتابیں غلط ہیں،کبھی کوئی ایسی بات مت کہو جو معتبر ذریعہ سے نہ ملی ہو۔(تذکرۃ الرشیدج۲ ص۴۲)القاب کے آداب: سید احمد شہید قدس سرہ کے سفر حج سے واپسی پر راستے میں مولوی سید کرامت علی بہاری کا الٰہ آباد سے خط آیا،سید عبدالرحمان صاحب کہتے ہیں کہ آپ نے وہ خط پڑھنے کے لئے مجھے دیا، اس میں آداب والقاب کے بعد یہ لکھا تھا کہ جناب والا کا سرفراز نامہ اس طرح شرف صدور لایا